میلاد کا پیغام ساری انسانیت کے نام

   

آج انسان نے ترقی و تقدم کے ایسے سنگ ہائے میل کو عبور کرلیا ہے، جس کے نظائر سابقہ ادوار میں نہیں ملتے اور کائنات کے ایسے دریچوں کو وا کیا ہے، جس سے سابقہ صدیاں ناآشنا تھیں اور روز بہ روز نت نئی ایجادات کے ذریعہ عقل کائنات کو انگشت بدنداں بنا دیا ہے۔ اس کی جستجو اور کامیابی پر دنیا حیرت و استعجاب میں ہے، جس کی دور بینی کے آگے بصارتیں خیرہ ہیں، جس کی فکری بلندی کے سامنے بلند قامت پہاڑ کوتاہ ہیں، جس کی بلند پروازی پر چشم ہائے فلک نازاں ہیں، جس کے عروج و ارتقاء پر سیارات سماوی شاہد عدل ہیں، جس نے آسمان و زمین کے فاصلوں کو ختم کردیا، مشرق و مغرب، شمال و جنوب کو جوڑکر متحد کردیا، سمندر کی گہرائیوں اور زمین کی تہہ میں ہزارہا سال سے چھپے حقائق کو آشکار کردیا، فضاؤں میں سڑک اور پانی میں بنیاد قائم کردیا ہے، اضداد کو جمع کردیا، حاضر کو غائب، غائب کو مشہود، ناممکن کو ممکن اور ممکن کو موجود کردیا۔ کائنات ارضی و سماوی کے مختلف حقائق کا سراغ حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوا، لیکن ایک ایسی حقیقت سے ناآشنا ہے، جو حقیقت الحقائق ہے۔ مجاز میں کھوکر حقیقت سے دور ہے۔ وجود محض سے نابلد ہے، جس کے وجود پر کائنات کا ذرہ ذرہ شاہد ہے۔ انسان تصرفات کائنات میں ایسا سرگرداں ہے کہ متصرف بالذات سے متعلق حیران و ششدر ہے۔ پھول کو پاکر پھول کے رنگ و رونق میں گم ہے، لیکن پھول کی خوشبو سے محروم ہے۔
انبیاء کرام وہ ذوات قدسیہ ہیں، جنھوں نے گردش ایام کے پس پردہ پوشیدہ و مبہم غیبی حقیقی طاقت و قوت کا ادراک کیا۔ چنانچہ دنیا کی سب سے مستند و معتبر غیبی دستاویز قرآن مجید حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گویا ہے ’’پس جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انھوں نے ایک ستارہ دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو کہا میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے۔ جب وہ غروب ہو گیا تو انھوں نے کہا کہ اگر میرا رب میری رہنمائی نہ کرے تو میں یقیناً (حقیقت سے) بھٹکی ہوئی قوم میں شامل ہو جاؤں گا۔ پھر جب انھوں نے خورشید کو تاباں دیکھا تو انھوں نے کہا یہ میرا رب ہے اور یہ سب سے بڑا رب ہے۔ جب وہ غروب ہو گیا تو کہا اے میری قوم! بے شک میں تمہارے شرک سے بری ہوں، میں یکسو ہوکر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔ (سورۃ الانعام۔۷۸ تا ۸۰)
اور اس خاکدان گیتی پر ایک ایسے عظیم المرتبت معجزاتی بندے کا وجود باوجود ہوا، جس نے مکہ کی سنگلاخ وادی میں پیدا ہوکر چودہ صدی قبل تجربات کے منازل سے گزرے بغیر حقائق کائنات کے پردوں کو ظاہر کیا۔ کئی ایک پوشیدہ گتھیوں کو سلجھایا۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر اختتام دنیا اور مابعد القیامت مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کیا۔ سابقہ اُمتوں اور ان کے مصلحین کی تاریخ مدون کی۔ قیامت تک پیش آنے والے واقعات کی سچی پیش گوئیاں کیں، جن کی ہمہ گیر عقل و دانش، فہم و فراست، حکمت و موعظت، اسلوب مقننہ اور حقائق اشیاء کے ادراک کے روبرو دنیا کے عظیم سے عظیم دانشور دم بخود ہیں۔اس ذات گرامی نے ساری کائنات کو اس حقیقت مبہمہ و غیر محسوسہ کا ادراک کروایا اور اس کے وجود حقیقی پر ہزارہا عقلی شواہد و دلائل پیش کرکے ساری کائنات پر کرم فرمایا اور ان کو اس ذاتِ ہمتا سے متعلق فکر و تدبر، محنت و جستجو، تحقیق و تفتیش سے بے نیاز کردیا، اس لئے رب کائنات اس محسن کائنات، معلم انسانیت، ہادی برحق، رہبر انس و جاں، محمد عربی ﷺکی شان میں فرماتا ہے ’’وَمَآ اَرْسَلْنَاكَ اِلَّا رَحْـمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ‘ (اے محبوب! ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا) یعنی سرکار دوعالم ﷺنے حقیقت الحقائق، خدائے ذوالجلال، رب کائنات کا سراغ بتاکر اس کی وحدانیت، الوہیت، صمدیت، خالقیت، معبودیت، قدرت، علم، کلام، حیاۃ، ارادہ، قیومیت وغیرہ مختلف پہلوؤں کو آشکار کرکے ساری دنیا کو خدا کی ذات سے متعلق مزید تحقیق و تفتیش سے بے نیاز کردیا۔
نبی اکرم ﷺنے خدا کے وجود، الوہیت، وحدانیت، محبت و وصال سے متعلق اپنی تحقیق کا خلاصہ ساری کائنات کو پیش کردیا کہ اب اس سے بہتر مزید تحقیق کوئی پیش نہیں کرسکتا۔ اب کائنات کو اللہ تعالی کی ذات پر ایمان لانے اور اس کی عبادت و اطاعت میں مصروف رہنے کے علاوہ کچھ باقی نہ رکھا۔
ہم مسلمان خوش قسمت ہیں کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے پیغام حق کو بہ سر و چشم قبول کیا اور اللہ تعالی کو اس کی شایان شان مان کر اس کے احکامات کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں اور ساری دنیا ظاہری و محدود ترقی و تقدم کی وادیوں میں بھٹک رہی ہے اور اصل کائنات، حقیقت الحقائق، وجود باری تعالی سے غافل ہے۔
ایک سائنس داں اپنی ساری جوانی بحث و تحقیق اور تجربات میں صرف کرتا ہے، مختلف نشیب و فراز سے گزرتا ہے، دنیا کی خواہشات و آرام کو پاؤں تلے روند کر محدود طریقے پر اپنی تحقیق میں عمر کے آخری ایام میں کامیاب ہوکر ایک غیبی طاقت و قوت کے وجود کا اقرار کرتا ہے۔ قربان جائیے ہمارے آقا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت و جانفشانی پر کہ جب کوئی لڑکا مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو اس کی زبان سے فہم و ادراک کے بغیر خود بخود اللہ تعالی کا نام نکلتا ہے اور وہ بچپن ہی سے اللہ تعالی کو حقیقی صانع و مالک مانتا ہے۔ ارشاد الہی ہے : ’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے مؤمنین پر احسان فرمایا کیونکہ ان میں ان ہی میں سے ایک رسول کو مبعوث فرمایا، جو ان پر آیات قرآنی کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور یقیناً وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔
ایسی عظیم ہستی کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی کا اظہار کرنا فطری و طبعی امر ہے، کیونکہ اس نبی کے صدقے میں ہمیں ایمان ملا، قرآن ملا، شریعت ملی، زندگی گزارنے کا صحیح سلیقہ ملا، ان کی وجہ سے ہمیں دین و دنیا کی سعادت مندی نصیب ہوئی۔ لیکن اس دن خوشی منانا درحقیقت تجدید عہد و تجدید وفا کرنا ہے کہ ہم اپنے آقائے دوجہاں کے عظیم پیغام و مشن کو اپناکر اپنی زندگی سنواریں گے اور دنیا کو پیغام اسلام پہنچاکر دنیا میں امن و امان، رشد و ہدایت، صداقت و راست بازی، عدل و انصاف، اکرام انسانیت، ہمدردی و غمخواری کو عام کرینگے۔ آخر میں مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک چشم کشا اقتباس ملاحظہ کیجئے:’’ماہ ربیع الاول کی یاد میں ہمارے لئے جشن و مسرت کا پیام اس لئے تھا کہ اسی مہینے میں خدا کا وہ فرمان رحمت دنیا میں آیا، جس کے ظہور نے دنیا کی شقاوت و حرماں کا موسم بدل دیا۔ ظلم و طغیان اور فساد و عصیاں کی تاریکیاں مٹ گئیں۔ خدا اور اس کے بندوں کا ٹوٹا ہوا رشتہ جڑ گیا۔ انسانی اخوت و مساوات کی یگانگت نے دشمنیوں اور کینوں کو نابود کردیا اور کلمہ کفر و ضلالت کی جگہ کلمہ حق و عدالت کی بادشاہت کا اعلان عام ہوا۔ ’’اللہ کی طرف سے تمہاری جانب ایک نور ہدایت اور کتاب مبین آئی۔ اللہ اس کے ذریعہ سے اپنی رضا چاہنے والوں کو سلامتی اور زندگی کی راہوں پر ہدایت کرتا اور ان کے آگے صراط مستقیم کو کھولتا ہے‘‘۔ (سورہ مائدہ)
لیکن دنیا شقاوت و حرماں کے درد سے پھر دکھیا ہوگئی۔ انسانی شر و فساد اور ظلم و طغیان کی تاریکی خدا کی روشنی پر غالب ہونے کے لئے پھیل گئی۔ سچائی اور راست بازی کی کھیتیوں نے پامالی پائی اور انسانوں کے بے راہ گلے کا کوئی رکھوالا نہ رہا۔ خدا کی وہ زمین جو صرف خدا ہی کے لئے تھی، غیروں کو دے دی گئی اور اس کے کلمہ حق و عدل کے غمگساروں اور ساتھیوں سے اس کی سطح خالی ہو گئی۔ ’’زمین کی خشکی اور تری دونوں میں انسان کی پیدا کی ہوئی شرارتوں سے فساد پھیل گیا اور زمین کی صلاح و فلاح غارت ہو گئی‘‘۔ (سورہ روم۔۴۱)پھر آہ! تم اس کے آنے کی خوشیاں تو مناتے ہو، پر اس کے ظہور کے مقصد سے غافل ہو گئے ہو اور وہ جس غرض کے لئے آیا تھا، اس کے لئے تمہارے اندر کوئی ٹیس اور چبھن نہیں۔یہ ماہ ربیع الاول اگر تمہارے لئے خوشیوں کی بہار ہے، تو صرف اس لئے کہ اس مہینے میں دنیا کی خزان ضلالت ختم ہوئی اور کلمہ حق کا موسم ربیع شروع ہوا۔