مختلف سوالات کا جواب دینے راہول گاندھی کا الیکشن کمیشن کو چیلنج!
نئی دہلی ۔8؍جون(ایجنسیز )ایک ہندی روزنامہ میں راہول گاندھی کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے گزشتہ سال ہوئے مہاراشٹرا اسمبلی انتخاب میں ’میچ فکسنگ‘ جیسی دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔ راہول گاندھی کے اس الزام کے بعد ملک میں سیاست تیز ہو گئی ہے۔ لوک سبھا میں قائد اپوزیشن راہول گاندھی کے دعووں پر الیکشن کمیشن نے اپنا سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے راہول گاندھی کے دعووں کو سرے سے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ کسی کے ذریعہ پھیلائی جا رہی کوئی بھی غلط جانکاری نہ صرف قانون کی بے حرمتی ہے بلکہ اپنی خود کی سیاسی پارٹی کے منتخب ہزاروں نمائندوں کو بھی بدنام کرتی ہے۔الیکشن کمیشن نے راہول گاندھی کے ’میچ فکسنگ‘ والے بیان پر اپنا رد عمل تو ظاہر کر دیا لیکن اب راہول گاندھی نے کمیشن کے سامنے کچھ تلخ سوالات رکھ دیے ہیں۔ راہول گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جاری کردہ ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ آپ ایک آئینی ادارہ ہیں۔ ثالثوں کو بغیر دستخط کے، ٹال مٹول کرنے والے نوٹ جاری کرنا سنگین سوالات کا جواب دینے کا طریقہ نہیں ہے۔ راہول گاندھی نے اس پوسٹ میں مزید لکھا ہے کہ اگر کمیشن کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے، تو میرے مضمون میں دیے گئے سوالات کے جواب دیں اور اسے ثابت کریں۔راہول گاندھی نے مضمون میں پیش کردہ سوالات کو بھی سوشل میڈیا پوسٹ میں درج کیا ہے اور الیکشن کمیشن کو اس کا جواب دینے کیلئے چیلنج پیش کر دیا ہے۔ انھوں نے کمیشن سے کہا ہے کہ مہاراشٹرا سمیت سبھی ریاستوں کے لوک سبھا اور اسمبلی کے سب سے حالیہ انتخابات کیلئے جمع کردہ، ڈیجیٹل، مشین۔ریڈیبل ووٹر لسٹ شائع کریں۔ مہاراشٹرا کے پولنگ مراکز سے شام 5 بجے کے بعد کی سبھی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کریں۔ راہول گاندھی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں یہ بھی لکھا کہ ٹال مٹول کرنے سے آپ (الیکشن کمیشن) کی ایمانداری محفوظ نہیں رہے گی۔ سچ بولنے سے آپ کی ایمانداری محفوظ رہے گی۔قابل ذکر ہے کہ راہول گاندھی نے ’دینک جاگرن‘ میں شائع اپنے مضمون کو ہفتہ کی صبح ’ایکس‘ پر شیئر کیا تھا۔ اس پوسٹ میں انھوں نے لکھا تھا کہ مہاراشٹرا میں جو کچھ ہوا، اسے بہار میں بھی دوہرائے جانے کا اندیشہ ہے۔ راہول گاندھی نے اپنے مضمون لکھا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی بھی میچ فکسنگ جیسی ہوتی ہے جو فریق دھاندلی کرتا ہے وہ بھلے ہی جیت جائے لیکن اس سے جمہوری ادارے کمزور ہوتے ہیں اور عوام کا نتائج سے بھروسہ اٹھ جاتا ہے۔