میڈیا ‘ ذمہ داری کی بجائے چاپلوسی

   

محفل میں آج تیری دیوانے آگئے ہیں
لیکر دِل و جگر کے نذرانے آگئے ہیں
کسی بھی ملک میں میڈیا کی اہمیت اور افادیت مسلمہ قرار دی جاتی ہے ۔ خاص طور پر جمہوری طرز حکمرانی میں میڈیا کی جہاں اہمیت بڑھ جاتی ہے وہیںاس کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے ۔ آزاد اور بے باک صحافت ہر وقت کی ضرورت رہی ہے ۔ میڈیا ہی کے ذریعہ بڑی اور اہمیت کی حامل تحریکیں چلائی جاتی ہیں۔ میڈیا ہی کے ذریعہ سماج میں شعور بیدار کیا جاتا ہے ۔ میڈیا ہی کے ذریعہ عوام کو ان کے حقوق سے آگہی کروائی جاتی ہے ۔ انہیں ان کے فرائض کی بھی یاد دہانی کروائی جاتی ہے ۔ یہ میڈیا ہی ہوتا ہے جو حکومت کو جھنجھوڑنے کا کام کرتا ہے ۔ حکومت کو اس کی ناکامیوں کا آئینہ دکھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ جہاں حکومت کی کامیابیوں اور اس کی اچھی پالیسیوں سے بھی عوام کو واقف کروایا جاتا ہے وہیں حکومت کے غلط فیصلوں اور اس کی عدم کارکردگی پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے وعدوں کی عدم تکمیل پر اسے جھنجھوڑا بھی جاتا ہے ۔ عوام کیلئے حکومت کی ذمہ داریوں کو وقفہ وقفہ سے یاد دلایا جاتا ہے ۔ تاہم ہندوستان میں ایک افسوسناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ یہاں بیشتر میڈیا ادارے اب میڈیا گھرانوں میں باقی نہیں رہ گئے ہیں بلکہ یہ کارپوریٹ اداروں کے زیر اثر آگئے ہیں۔ کارپوریٹس نے اپنے اپنے میڈیا ہاؤس شروع کردئے ہیں اور ان کے ذریعہ وہ حکومتوں کی چاپلوسی اور خوشامد پسندی میں جٹ گئے ہیں۔ حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی بجائے حکومت کے ہر غلط فیصلے اورا قدام کا جواز تلاش کرنے کی بے شرمانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ حکومت سے سوال کرنے اور کارکردگی کا حقیقی جائزہ پیش کرنے کی بجائے اپوزیشن کو گھیرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن کواپنی بات رکھنے اور حکومت سے سوال کرنے کا موقع دینے کی بجائے انہیں غیر اہم قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ بعض صورتوں میں تو اپوزیشن کی بے عزتی کی جا رہی ہے اور اس کے وجود پر ہی سوال اٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا ادارے اور چینلس اب صحافتی ذمہ داری کے احساس سے نہیں بلکہ خوشامد پسندی کے جذبہ سے کام کر رہے ہیں۔
جو حقیقی معنوں میں صحافی ہوا کرتے تھے وہ حکومت اور سرکاری حلقوں کے علاوہ اپوزیشن میں اپنی شناخت رکھنے اور بہتر تعلقات رکھنے کے باوجود کسی سے بھی سوال کرنے سے گریز نہیں کیا کرتے تھے ۔ جہاں حکومت کی بہتر کارکردگی کو اجاگر کرتے ہوئے پیش کیا جاتا تھا وہیں اس کی خامیوں اور نقائص کو بھی عوام کے سامنے لانے سے گریز نہیں کیا جاتا تھا ۔ اسی طرح اپوزیشن کو جہاں حکومت سے سوال کرنے کے مواقع فراہم کئے جاتے تھے وہیں اپوزیشن کی ناکامیوں اور اس کی بھی عدم کارکردگی کو بھی پیش کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی تھی ۔ حالیہ چند برسوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اب ٹی وی چینلوں پر صحافی کم اور اینکرس زیادہ بیٹھنے لگے ہیں۔ وہ حکومت کی چاپلوسی اور تلوے چاٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانا چاہتے ہیں۔ حکومت کو دستور اور قانون کے مطابق اس کی ذمہ داری کا احساس دلانے کی بجائے حکومت کے نمائندے اور ترجمان بنے بیٹھے ہیں اور حکومت سے سوال کرنے والوں کو موقع دینے کی بجائے ان کی ہتک کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کررہے ہیں۔ ملک میں ہر واقعہ اور ہر بات کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے عوام میں اسی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ہندو ۔ مسلم ہمارے میڈیا کا پسندیدہ ترین موضوع بن گیا ہے ۔ ایسا لگنے لگا ہے کہ یہ چینلس نیوز چینل نہیں بلکہ مذہبی تشہیر اور پروپگنڈہ کرنے والے اداروں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ یہ صورتحال افسوسناک ہے ۔
حکومتوں سے سوال کرنے اور انہیں ان کے وعدے یاد دلانے کی بجائے اپوزیشن کو ان کے اقتدار میں ہونے والی غلطیوں کا احساس دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ سوال نہیں پوچھا جا رہا کہ ملک میں کتنے نوجوانوں کو روزگار دیا گیا ہے ۔ یہ انکشاف نہیں کیا جا رہا ہے کہ کتنی سرکاری ملازمتیں ختم کردی گئی ہیں۔ یہ دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ہندو کتنے طاقتور ہوگئے ہیں۔ یہ جشن منایا جا رہا ہے کہ ایک بڑا مندر بن گیا ہے ۔ یہ نہیں دکھایا جا رہا ہے کہ خواتین پر مظالم کتنے ہوگئے ہیں۔ مہنگائی کس حد تک پہونچ گئی ہے یہ جواز پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عالمی حالات بدل گئے ہیں اسی لئے پٹرول مہنگا ہوگیا ہے ۔ میڈیا کا یہ چاپلوسانہ انداز اور جانبدارانہ پروپگنڈہ ملک کی جمہوریت کیلئے مفید ہرگز نہیں ہے ۔
تلنگانہ میںسیاسی موسم گرم
ویسے تو ملک بھر میں سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور کہیں اسمبلی انتخابات تو کہیں آئندہ پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں عروج پر پہونچ گئی ہیں۔ ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کیلئے اب بہت کم وقت رہ گیا ہے جن میں تلنگانہ بھی شامل ہے ۔ تلنگانہ میں سیاسی موسم میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے ۔ ہر جماعت کی اپنی اپنی تیاریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ اب انتخابی حکمت عملی کو قطعیت دی جانے لگی ہے ۔ تلنگانہ میں یہ سرگرمیاں زیادہ دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ بی آر ایس حکومت اپنی تیسری معیاد کیلئے کوشاں ہے جبکہ کانگریس بھی بی آر ایس کو اقتدار سے بہرقیمت بیدخل کرنے کے عزم کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے ۔ کانگریس کیلئے تشکیل تلنگانہ کے بعد سے پہلی مرتبہ مواقع بہتر دکھائی دے رہے ہیں۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اور کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد پارٹی کے حوصلے تلنگانہ میں بلند ہوگئے ہیں۔ بی جے پی کی سیاسی وقعت میں کمی کے بعد اب مقابلہ راست بی آر ایس اور کانگریس میں دکھائی دے رہا ہے ۔ اسی لئے بی آر ایس نے بی جے پی کی بجائے کانگریس کو زیادہ نشانہ بنانا شروع کردیا ہے ۔ سیاسی موسم کی گرمی انتخابات کا عمل مکمل ہونے تک برقرار رہے گی اور یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ سیاسی حالات بھی تبدیلیاں بھی تیز ہوجائیں گی ۔