محمد ریاض احمد
میں دستور ہند ہوں، کوئی مجھے آئین کہتا ہے تو کوئی مجھے بھارتیہ سمودھان کا نام دے کر اس سے وفاداری کا اعلان کرتا ہے۔ میری نظر میں بلا لحاظ مذہب و ملت تمام ہندوستانی مساوی ہیںوہ یکساں حیثیت رکھتے ہیں اور یقینا مجھے اپنے ملک کے شہریوں پر ناز ہے جنھوں نے مجھے سب سے بڑا اور اعلیٰ قانون اہم ترین دستاویز مانا ہے۔ میری قدر کی ہے، میرے اور میرے ملک ہندوستان کے تحفظ کا عہد کیا ہے اور ہر روز صبح تعلیمی اداروں میں میری تمہید پڑھی جاتی ہے تو ماحول میں ایسا لگتا ہے کہ بھائی چارگی، اتحاد و سالمیت کی خوشبو پھیل جاتی ہے اور تمام ہندوستانیوں کو یہ پیام جاتا ہے کہ تم سب ایک مقتدر اعلیٰ ،سوشلسٹ سیکولر اور جمہوری ملک ہندوستان کے شہری ہو اور اسے خوشحالی و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا عہد مصمم کرچکے ہو۔ تمام ہندوستانیوں کے لئے سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف کو یقینی بنانے کا عہد کئے ہوئے ہیں۔ میں نے ہندوستانیوں کو جو اظہار خیال کی آزادی، سوچ فکر کی آزادی، مذہبی و عبادت کی آزادی، تبلیغ کی آزادی اور تمام کو اتحاد و سالمیت اور باوقار زندگی گذارنے کا حق عطا کیا ہے اس کا میرے ملک کے دامن میں بسنے والے تمام ہندوستانیوں پر اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے جس طرح تالاب کو ایک گندی مچھلی خراب کرتی ہے جس طرح آلودگی ماحول کو تعفن زدہ کردیتی ہے جیسے جراثیم کائنات کی ہر چیز کو بوسیدہ کردیتے ہیں ایسے ہی میرے ملک میں کچھ عناصر ہیں جو بار بار مجھے پامال کررہے ہیں۔ میری خلاف ورزیوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔ مذہب، ذات پات، علاقہ واریت، رنگ و نسل اور زبان کے نام پر میری دھجیاں اُڑارہے ہیں۔ میرے نام پر تباہی مچانے میں مصروف ہیں لیکن ان بیوقوفوں کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ وہ لاکھ ترامیم کرلیں مجھے تبدیل نہیں کرسکتے کیوں کہ آج بھی مجھے بنانے، سجانے، سنوارنے والے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، پنڈت جواہرلال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، ولبھ بھائی پٹیل، سرسید سعد اللہ، راجکماری امرت کور، سی راجگوپال چاری، ڈاکٹر راجندر پرساد، سروجنی نائیڈو (تمام مجلس دستور ساز کے ارکان) کے چاہنے والوں کی اکثریت ہے جو فرقہ پرستی کو فروغ دینے والوں کو میرے استحصال سے یقینا روک دیں گے۔ بہرحال میں ملک کے موجودہ حالات کے بارے میں بعد میں بات کروں گا۔ پہلے اپنی پیدائش، اپنی جوانی اور موجودہ حالات کے بارے میں آپ کو واقف کرواؤں گا۔ جن ہندوستانیوں کی پیدائش میرے ساتھ ہوئی تھی، شائد اُن میں اکثر اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ باقی ہیں بھی تو مجھے یقین ہے کہ وہ جنت نشان ہندوستان کی موجودہ صورتحال سے خوش نہیں ہیں بلکہ ماضی کی سنہری یادوں کو یاد کرکے ان کی آنکھوں سے شائد آنسو رواں ہوجاتے ہوں گے۔ ہاں میں بتارہا تھا کہ مجھے تیار کرنے میں مجلس دستور ساز کے ارکان کو زائداز تین سال کا عرصہ لگا، مجلس دستور ساز نے 26 نومبر 1949 ء کو مجھے تسلیم کیا اور 26 جنوری1950 ء کو میرا نفاذ عمل میں آیا۔ یعنی دستور ہند گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کو بدل کر مجھے ملک کی بنیادی سرکاری دستاویز بنادیا گیا جس کے ساتھ ہی ہندوستان ایک جمہوری ملک بن گیا۔ میری مخالفت کرنے والوں نے مجھے اور میرے ملک کے پرچم کو منحوس قرار دے کر ہماری عداوت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان ایک جمہوری سوشلسٹ اور سیکولر ملک بنے لیکن محب وطن ہندوستانیوں نے مجھے بنایا۔ اپنے سر پر بٹھایا ، اسے چوما، آنکھوں اور سینے سے لگایا۔ اے میرے ملک کے باشندو آپ جبکہ 71 واں یوم جمہوریہ منارہے ہیں میں یہ بھی بتادوں کہ میں دنیا کا سب سے بڑا یعنی ضخیم دستور یا قانونی دستاویز ہوں اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ 71 برسوں میں مجھے نقصان پہنچانے میرا ناجائز استعمال کرنے یا میرے نام پر ناپاک سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے نام نہاد قوم پرستوں کی جانب سے کی گئی کوششیں بالکل ناکام رہیں۔ اے میرے ہندوستانی باشندوں اے میرے ہم وطنو میں ضخیم قانونی دستاویز اس لئے ہوں کہ 395 دفعات، 23 ابواب اور 8 شیڈولس اور 146385ہزار الفاظ پر مشتمل ہوں۔ مجھ میں اب تک 103ترامیم کی جاچکی ہیں۔ میں نے سیاسی جماعتوں اور ملک کے عوام کو باضابطہ بتادیا ہے کہ مقننہ، عاملہ اور عدلیہ کے فرائض و اختیارات کیا ہیں۔ عوام کے بنیادی حقوق، رہنمایانہ اُصول و قواعد اور ان کی ذمہ داریوں کو بھی واضح کردیا ہے۔ جمہوریت کے بنیادی سیاسی نکات، سرکاری اداروں کے ڈھانچہ، اختیارات، طریقہ کار کو بھی میں نے کھول کھول کر واضح کیا ہے۔ اور ایک اہم بات بتادوں کہ دستور ساز اسمبلی کے ارکان میں درج فہرست طبقات و قبائل، مسلمان، اینگلو انڈینس، پارسی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیتیں شامل تھیں۔ کولمبیا یونیورسٹی اور لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈاکٹریٹ کرنے والی باوقار شخصیت ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور ان کے ساتھیوں نے مجھے بہت ہی محنت سے تیار کیا اور مجھ میں ہر ہندوستانی کے ساتھ انصاف، مساوات، آزادی اور بھائی چارگی کو فروغ دینے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دی۔ میں نے واضح طور پر بتایا ہے کہ ہندوستان کا آئیڈیا کیا ہے۔ ہندوستان کا آئیڈیا گنگا جمنی تہذیب، ہندو مسلم اتحاد ، کثرت میں وحدت اور سب سے بڑھ کر انسانیت ہے۔ ہندوستان یقینا ایک ایسا چمن ہے جس میں انواع و اقسام اور مختلف رنگوں کے خوبصورت پھول کھلتے ہیں۔ میں نے آزاد ہندوستان میں خود پر اور جمہوریت پر کئے گئے کئی حملوں کا مشاہدہ کیا ہے لیکن ہر وقت ہندوستانی عوام نے ہمیں دشمنوں سے بچایا۔ میں نے آزادی کے بعد وہ دن بھی دیکھے جب آج اقتدار سے چمٹی ہوئی بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس نے مجھے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا یہاں تک کہ میرے ملک کے قومی ترنگے کو آر ایس ایس نے جس کے قائدین اب خود کو قوم پرست قرار دیتے نہیں تھکتے اپنے ہیڈکوارٹر پر کئی برسوں تک نہیں لہرایا میں نے 71 برس کے طویل عرصہ میں کئی نشیب و فراز بھی دیکھے۔ 18 وزرائے اعظم کی میعادوں کا مشاہدہ بھی کیا۔ وزیراعظم کی حیثیت سے میں نے پنڈت جواہرلال نہرو کی ترقیاتی سوچ اور ہندوستان کی ترقی کا آغاز بھی دیکھا۔ لال بہادر شاستری کی سادگی دیکھنے کا بھی مجھے موقع ملا، اندرا گاندھی جیسی زیرک وزیراعظم سے بھی مجھے سابقہ پڑا اور خاص طور پر میں نے اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی کو بھی قریب سے دیکھا۔ اندرا گاندھی کے قتل سے بھی اور پھر 1984 ء کے سکھ قتل عام سے بھی واقف ہوں۔ میری نظروں نے اس سے پہلے سکھوں کے سنہری گردوارہ پر آپریشن بلیو اسٹار (فوجی کارروائی) ہوتی دیکھی ہے۔ راجیو گاندھی نے جس طرح ہندوستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا کیا اس سے بھی آگہی حاصل کی۔ بوفورس اسکام کی بنیاد پر وی پی سنگھ کو اقتدار میں آتے اور اقتدار سے محروم ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ پی وی نرسمہا راؤ کے دور کے وزیر فینانس ڈاکٹر منموہن سنگھ کی صلاحیتوں کا نظارہ بھی کیا اور راؤ کے دور میں ہی شہادت بابری مسجد کی شکل میں جمہوریت کا سیاہ دن بھی دیکھنے کی تکلیف سے مجھے گزرنا پڑا۔ واجپائی کے مختصر میعاد کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کا دس سالہ اقتدار بھی میری نظروں سے گذرا اور میں ان کی لیاقت سے کافی متاثر ہوا۔ خاص طور پر ڈاکٹر حنیف کو دہشت گردی کے الزام میں آسٹریلیا میں گرفتار کیا گیا تھا، اُس وقت ڈاکٹر سنگھ کی انسانیت نوازی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 25 مئی 2014 ء سے مجھے پامال کرنے کا آغاز ہوا۔ اُس وقت گجرات کے چیف منسٹر نریندر مودی جن پر گجرات قتل عام میں ملوث رہنے کے الزامات عائد کئے جاتے رہے وہ عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے شائد اُس باوقار عہدہ پر مودی کے فائز ہونے کے بعد ملک میں میری دھجیاں اُڑانی شروع ہوگئیں۔ عاملہ بھی مجھ سے غفلت برتنے لگا۔ مقننہ میں تو ایسے لوگ آگئے جو میرے بارے میں معمولی معلومات بھی نہیں رکھتے۔ عدلیہ پر مجھے بہت اعتماد ہے لیکن بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں جو فیصلہ آیا اس پر خود بے شمار ماہرین قانون نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ مودی کے دور میں کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی موقف کی منسوخی اور شہریت ترمیمی قانون کی تشکیل نے ہندوستان میں بے چینی کی ایک لہر پیدا کردی۔
اس میں موجودہ مشیر قومی سلامتی اجیت دوول کا اہم کردار رہا تھا۔ میری زندگی میں کئی تکلیف دہ لمحات آئے لیکن 84 کے مخالف سکھ فسادات، 2002 کے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور اس سے پہلے 6 دسمبر 1992 کو شہادت بابری مسجد اور ممبئی کے مخالف مسلم فسادات تو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ مئی 2014 میرے لئے بڑا منحوس رہا کیوں اس ماہ اور سال میں ہی نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے پہلی بار اقتدار سنبھالا تھا وہیں سے میری پامالی کے رجحان نے شدت اختیار کی۔ میں نے ہندوستان کے عوام کو جو اظہار خیال کی آزادی، باوقار زندگی گذارنے کا اختیار، مساویانہ حقوق عطا کئے تھے اس پر ڈاکے ڈالے جاے لگے عوام کی آواز دبانے اور جمہوریت کا گلا گھوٹنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں نے دیکھا کہ کس طرح بے شرمی سے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے بدقماش عناصر نے مختلف بلز اور قوانین کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کے حقوق اور ان کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نافذ کرتے ہوئے کیسے حکومت نے عوام کا جینا دوبھر کردیا۔ میری نظروں میں آج بھی وہ مناظر قید ہیں جو نوٹ بندی کے دوران بینکوں اور اے ٹی ایمس کے سامنے قطاروں میں ٹھہر ٹھہر کر مرد و خواتین فوت ہو رہے تھے میں نے جی ایس ٹی کے بعد کاروباری حضرات اور کسانوں یہاں تک کہ بیروزگاروں کو خود کشی کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ مجھے اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب دارالحکومت دہلی اور ملک کے مختلف حصوں میں کسی ماں بیٹی بہو کی عصمتیں تار تار کی جاتی ہیں۔ نربھئے کے ساتھ دہلی میں جو کچھ ہوا اس کے مجرمین اب تک پھانسی کے پھندہ سے بچے ہوئے ہیں۔ شاید آنے والے دنوں میں) انہیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے ملک میں سالانہ کم از کم 380000 خواتین اور لڑکیاں اپنی عصمتوں سے محروم ہو جاتی ہیں۔ ملزمین میں سیاستداں بھی شامل ہیں۔ بی جے پی کے سابق مرکزی وزیر اور تین مرتبہ رکن پارلیمنٹ رہے چنمیانند سوامی کو میں بھول نہیں سکتا اس بوڑھے نے اپنی ہی کالج کی ایک طالبہ کے ساتھ بار بار منہ کالا کیا لیکن پولیس اس بوالہوس کا منہ کالا کرنے سے شرماتی رہی۔ الٹے متاثرہ لڑکی کے خلاف ہی مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کرلیا۔ میں نے بی جے پی کے رکن اسمبلی کلدیپ سنگر (جسے بی جے پی نے بے عزتی کے ڈرسے پارٹی سے نکالدیا) کو بھی ذلیل ہوتے دیکھا ہے جس نے اس کمسن لڑکی کو ہوس کا نشانہ بنایا جو اس کے پاس ملازمت حاصل کرنے کے لئے گئی تھی۔ اترپردیش میں مسلسل ناانصافیاں ہو رہی ہیں۔ پولیس کی درندگی جاری ہے۔ وہ بھی میں جانتا ہوں حالیہ عرصہ کے دوران میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس اور فرقہ پرست دراندوں کی درندگی بھی دیکھی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران میں نے شاہین باغ میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر وطلبہ پر درندگی کے خلاف بہادر خواتین کا ڈٹ جانا بھی دیکھا ہے۔ شاہین باغ کی خواتین نے سارے ملک کی خواتین کو ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے کا سبق دیا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اقتدار کے دلال فی الوقت بلیک میلنگ اور خوف و دہشت پیدا کرنے کے طریقہ پر عمل پیرا ہیں۔ ملک کی دس اہم مرکزی ایجنسیوں کے حکام کو بھی میں نے حکومت کے دباؤ میں کام کرتے دیکھا۔ آپ کو یہ بھی بتادوں کہ میں ہجومی تشدد کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کے بیدردانہ قتلوں کا بھی شاہد ہوں اخلاق، امتیاز ایوب، تبریز، پہلو خان میں کس کس کے نام گنواوں غرض میں آپ کو یہ بتادوں کہ اب ہمارے ملک میں جمہوریت سیکولر ازم سوشلزم اقلیتیں بالخصوص مسلمان، عیسائی، دلت کے ساتھ ساتھ بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں۔ شعرا، ادبا، مصنفین حقوق انسانی کے جہدکار اداکار، معقولیت پسند کوئی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ میں نے مصنفین کو ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ اور پدم شری ایوارڈس واپس کرتے ہوئے بھی دیکھا بہرحال اب میں آپ سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ اب میرے وجود میری بقا کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ فرقہ پرست مجھے تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں میری درخواست ہے کہ انہیں روکو مجھے ان نام نہاد قوم پرستوں سے بچالو جنہوں نے ملک کو تباہ و برباد کرنے کی ٹھان لی ہے۔ میں آپ سے پھر درخواست کرتا ہوں مجھے بچالو مجھے بچلو مجھے بچالو۔