میں کس زباں سے کروں گا شکایتیں تیری

   

محمد مصطفی علی سروری
میں اللہ تعالیٰ کی بے انتہاء شکر گذار ہوں۔ میرے پاس گھر ہے جہاں پر میں سو سکتی ہوں اور کھانا کھاسکتی ہوں۔ میرے بچے ہیں جن کے ساتھ میں خوشی سے زندگی گذار سکتی ہوں۔ لیکن وہ جو پاس میں ریلوے اسٹیشن ہے وہاں پر بہت سارے ایسے لوگ رہتے ہیں جن کے ہاں رہنے کے لیے گھر نہیں ہے اور جو راتوں میں سردی سے پریشان رہتے ہیں۔ دوپہر میں کھانے کے لیے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کوئی نہیں ہے۔ میں جب ایسے لوگوں کو دیکھتی ہوں تو سونچتی ہوں کہ میں کس منہ سے اللہ تعالیٰ سے اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کی شکایت کروں۔
حالانکہ میرا گھر بھی خستہ اور چھوٹا ہے، میں صبح اور دوپہر کھانے میں چاول دال ہی کھاتی ہوں۔ مجھے بھی بیماریوں نے گھیرے رکھا ہے۔ مگر پھر بھی میں اللہ رب العزت کی شکر گذار ہوں جس نے مجھے بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔ مجھے ایسا کوئی سنگین مسئلہ نہیں ہے کہ میں تم سے مدد مانگوں۔ میں اپنی جیسی بھی زندگی ہے اس سے بہت خوش ہوں۔
ہاں مجھے ایک غم پریشان کردیتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں دوسروں کے لیے چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکی اور یہی بات کہ میں ضرورت مندوں کو دیکھ سکتی ہوں۔ مگر ان کی مدد نہیں کرسکتی ہوں ۔ مجھے پریشان کردیتی ہے۔ میں یہ سونچتی رہتی ہوں کہ جب میں مرجائوں گی تو اپنے ساتھ کیا لے کر جائوں گی اس کے علاوہ مجھے اس بات کا بھی پتہ نہیں کہ میں اگلی سردیوں تک زندہ بھی رہوں گی یا نہیں کیونکہ میری عمر کے لوگ اس سخت سردیوں کے موسم میں بری طرح پریشان رہتے ہیں۔ جب آپ بوڑھے ہوں اور غریب بھی تو آپ کا کوئی بھی خیال نہیں رکھتا اور آپ کو ہر پریشانی خاموشی سے سہنی پڑتی ہے۔ کیونکہ بوڑھوں کا درد کسی کو نہیں محسوس ہوتا۔ ان کو گرم رہنے اور رکھنے کے بارے میں کوئی بھی خیال نہیں کرتا۔ سردیوں کے ایسے ہی موسم میں میری عمر کے چند لوگ صبح کے وقت اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے آگ جلاکر ایک ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم سبھی لوگوں کو بس اپنی موت کا انتظار ہے۔ جب بھی سردیوں کا موسم آتا ہے ہم میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے کر موت کی نیند سلادیتا ہے۔ گذشتہ برس سردیوں کے اسی موسم میں صفورہ ہمارے ساتھ تھی لیکن نمونیا ہونے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس برس ہم میں سے کون موت کی نیند سوجائے گا۔
میرے لیے بھی زندگی کبھی آسان نہیں تھی۔ مجھے پہننے کے لیے نئے کپڑے کبھی نہیں تھے لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کیونکہ کئی لوگ تو ایسے ہیں ان کے ہاں تو وہ بھی نہیں جو میرے پاس ہیں۔ کچھ دن پہلے میری زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی نے مجھے سردیوں سے محفو رہنے کے لیے گرم شال دی۔ اس نئی شال کو میں صرف دیکھتی رہتی تھی۔ اس کو کھولنے اور پہننے کی مجھ میں ہمت ہی نہیں ہوئی۔ جب میں نے اپنے پڑوس میں 90 برس کی بوڑھی مریم کو دیکھا جس کے پاس سردیوں کے اس موسم میں بھی پہننے کے لیے صحیح کپڑے نہیں ہیں تو میں نے اپنی نئی شال مریم کو دے دی۔ میں چاہتی ہوں کہ مریم اس سردیوں کے موسم کو جھیل کر زندہ بچ جائے۔ اگر میری دی ہوئی شال تھوڑے دن ہی صحیح مریم کو سردی سے محفوظ رکھے تو میں سونچوں گی کہ یہ میرے لیے بہت بڑا انعام ہوگا اور ہاں میرا کیا ہوگا میں تو اس پرانی شال کے سہارے بھی سردیوں کو جھیل لوں گی لیکن جب سردیاں بہت شدید ہوجائیں گی تو میں ذکر (عبادت) کروں گی۔ تم چاہے بھروسہ کرو یا نہیں لیکن جب میں ذکر (عبادت) کرتی ہوں تو میرے اندر گرمی آجاتی ہے۔‘‘
قارئین یہ کسی کہانی کی کتاب کا قصہ نہیں بلکہ بنگلادیش کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ جی ایم بی آکاش کی سچی زندگی کی تصویری کہانی ہے۔ جو انہوں نے 12؍ دسمبر 2019کو ڈھاکہ سے بریک کی۔ آکاش نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ فوٹو جرنلزم ان کا پیشہ ہے۔ اپنی تصویروں کے ذریعہ وہ سچ کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن بحیثیت انسان وہ سچ کو جان لینے کے بعد اپنی انسانی ذمہ داریو ںکو بھی پورا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
قارئین جی ہاں آپ نے جس بزرگ خاتون کی کہانی اور ان کی جدو جہد سے پر مگر شکر گذاری کے ساتھ گذاری جانے والی زندگی کے بارے میں پڑھا ہے وہ کہانی جی ایم بی آکاش نے ہی رپورٹ کی ہے اور بتلایا کہ اس خاتون کا نام مرشیدہ بیگم ہے۔ مرشیدہ بیگم کی اپنے گھر کے سامنے بیٹھی ہوئی ایک تصویر بھی آکاش نے منسلک کی ہے۔ مرشیدہ بیگم کی خود اپنی تصویر اور اس کے بالکل پیچھے ان کے گھر کی تصویر ذرا غور سے ملاحظہ کیجیے۔ ایک ضعیف بیمار، غریب کمزور خاتون ہم سب کو سکھا رہی ہے کہ ہم اپنے رب کا شکر ادا کرنا سیکھیں۔ لیکن خدا مغفرت کرے ہم لوگ تو معلوم نہیں جانے انجانے میں دانستہ نادانستہ ہر لمحہ ناشکری ہی تو کرتے ہیں ۔
شرفو بھائی کا اصلی نام کیا ہے کسی کو یاد نہیں لیکن شرفو کو پورا محلہ بس اسی نام سے جانتا ہے کہ شام ہوتے ہی دوستوں کے ساتھ ہوٹل میں چائے، بسکٹ اور مرچیوں کی محفل میں شرفو بھائی اپنی زندگی کے نئے پرانے قصے سناتے ہیں۔ شرفو بھائی کو کسی اور سے شکایت تھی یا نہیں لیکن وہ اپنے ہی مرحوم باپ سے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے کہ انہوں نے بس اپنے پیچھے ایک ہی مکان چھوڑا ہے۔ شرفو بھائی کے مطابق ان کے والد اگر ذرا سی عقل مندی کرتے تو آج ان کے نام کروڑ ہا روپیوں کی جائیداد ہوتی۔ شرفو بھائی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد اکثر گھر پر ہی رہتے اور شام میں محلے والوں کے ساتھ اپنی محفل سجاتے ہیں۔
عبدالصمد نے اگرچہ ایم ٹیک کیا ہے لیکن وہ بھی اپنے والد سے ناراض ہے کہ جس وقت اس نے اپنے والد سے 10 لاکھ روپئے پوچھے تھے کہ ایجنٹ نے 10 لاکھ میں امریکہ بھجوانے کا یقین دلایا تھا تو ان کے والد نے ہاتھ اٹھالئے تھے کہ میں اتنی رقم برداشت نہیں کرسکتا ہوں۔ عبدالصمد اگرچہ ایک خانگی انجینئرنگ کالج میں بطور انسٹرکٹر کام کرتے ہوئے 35 ہزار کی تنخواہ حاصل کر رہا ہے مگر وہ ہر روز اپنے دوستوں کے سامنے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا کہ اگر میں امریکہ میں ہوتا تو ماہانہ 10 ہزار ڈالر کمالیتا تھا۔ یہ تو والد کی غلطی تھی کہ وہ اسے امریکہ بھجوانے کے لیے 10 لاکھ نہیں دیئے۔
محترمہ کلثوم بی کے شوہر ریلوے میں ملازم تھے۔ ان کے انتقال کے بعد کچھ برس کلثوم بی نے بھی ملازمت کی۔ اب وہ 70 سال کی عمر میں گھر پر ہی رہ رہی ہیں۔ حالانکہ لوگ بتلاتے ہیں کہ ان کو وظیفہ بھی آتا ہے اور ریلوے کی جانب سے ان کی بیماریوں کے اخراجات بھی پورے کیے جاتے ہیں مگر وہ اکثر اپنے بیٹے اور پوتروں کے سامنے روتی رہتی ہیں کہ یہ کیسی زندگی ہوگئی کھانا سامنے رہتا مگر پرہیز کی وجہ سے کھا نہیں سکتی اور کھانا کھائیں یا نہ کھائیں مگر دوائیاں ضرور کھانی پڑتی ہیں۔
واقعی ہم لوگ کتنے ناشکرے ہوگئے کہ کسی کی مدد کے بغیر سانس لے سکتے ہیں مگر شکر نہیں کرتے۔ بغیر دوائی کھائے کہ کھانا کھاکر ہضم کرلیتے ہیں مگر شکر ادا نہیں کرتے۔ سردیوں کے موسم میں سردی سے محفوظ رہنے گرم کپڑے پہنتے ہیں مگر شکر ادا نہیں کرتے۔ پورے جسم کی صحت مندی کا شکر ادا کرنے کے بجائے سر درد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے کچھ نہیں کرپارہے ہیں۔
اپنے ہی پائوں پر اٹھ کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ناخن کا زخم جلد نہیں سوکھ رہا ہے۔ گھر بیٹھے آرام سے کھانا کھانے کے باوجود بھی اس بات کا شکواہ کرتے ہیں کہ اس ہفتہ باہر کے گرما گرم کباب نہیں کھاسکے۔
بغیر گولی کھائے رات میں جی بھر کر سو تو جاتے ہیں مگر صبح فجر کی نماز کو اٹھتے وقت سردی ہمارے آڑے آجاتی ہے۔
خدا نیک توفیق دے مجھے اور آپ کو اور ناشکری کے ہر کلمہ سے ہماری زبانوں کو محفوظ رکھے اور اللہ رب العزت کی ہر نعمت کی اہمیت کو سمجھنے اس کا شکر ادا کرنے والا بنا۔ قبل اس کے کہ ہماری آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں او رہماری زبان الحمد للہ کہنے کے بھی قابل نہیں رہے۔ بقول شاعر ؎
ادا ہوا نہ کبھی مجھ سے ایک سجدۂ شکر
میں کس زباں سے کروں گا شکایتیں تیری
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com