میں کیسے کہوں کہ مجھے اپنے دیش پر ناز ہے

   

محمد ادیب، سابق رکن پارلیمان
میں کیسے کہوں کہ مجھے اپنے دیش پر ناز ہے، میں شرمندہ ہوں 75 سال کے بعد اس طرح کا درد عام انسان سے اُٹھ رہا ہے۔ ایک وہ شخص جس نے اس ملک کو بنایا اس کو آزاد کرایا اس کو قتل کردیا۔ جس شخص نے اس ملک کو ایک سمت دی ، سنوارنے اور سماجی انصاف اور برابری کا تصور دیا، ایک دستور دیا اس کو روز توڑا جاتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ عجیب ملک ہے کہ گاندھی ہو یا امبیڈکر ہم دونوں کے قاتل ہیں ، یہ ستم ہے اس ملک میں یہ درد ہم اس لئے سمجھتے ہیں جو ہمارے دلت بھائیوں کے ساتھ جو ستم ہوا وہ ہم پڑھا تو تھا ، محسوس اب کیاہے، پچھلے چند برسوں سے اس لئے کہ جس قوم نے اس ملک کو اپنے خون سے سینچا ہو ، ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہماری خطا کیا ہے ۔ ہم نے جناح کو ٹھکرایا تھا ، گاندھی کو اپنایا تھا جس کی سزا یہ ملی کہ آج الیکشن اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کو کون ٹھیک کرے گا اور وہ الیکشن جیتتا ہے۔ یہ سماج ایسا سماج بن گیا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک محترمہ کو صدر جمہوریہ کے باوقار عہدہ پر فائز کیا گیا لیکن صدر بننے کے بعد پنڈتوں کے ذریعہ ان کی شدلی کرائی گئی یعنی شُد کیا گیا۔ یہاں تک کہ ابھی ہماری صدر محترمہ ایک بنی بڑی عزت کی بات ہے لیکن بننے کے بعد پہلے جاکے ان کو شدلی ان کو کی گئی پنڈتوں کے ذریعہ ۔ اس طرح یہ بتایا گیا کہ صدر تو ہم تمہیں الیکشن کے لئے بنادیں گے لیکن ہم آج کہتے یہ ہیں کہ جن لوگوں نے 65 سال تک ترنگا کو اپنایا نہیں ، بھگوا کو اپنا جھنڈا مانا ، وہ آج ہم سے کہتے ہیں کہ جھنڈا لہراؤ ترنگا لگاؤ۔ جنہوں نے 62 سال تک امبیڈکر کے دستور کو نہیں مانا ، آج کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ جاؤ۔ آر پی سنگھ صاحب جب تقریر کر رہے تھے تو میرا وجود ہل رہا تھا ۔ زندگی کے 77 سال پورے کردیئے میں نے ، ایک بیمار آدمی ہوں ، گردے کا آپرشن ہوچکا ہے، باہر بہت کم نکلتا ہوں لیکن جب میرے دوست دھرم سنگھ نے کہا کہ بھائی ایک لڑائی لڑنے جارہے ہیں مل کے اور یہ ملک بچانا چاہتے ہیں تو میں نے کہا کہ میں ضرور آؤں گا کیونکہ ایسی محفلیں ایک طریقہ ہے کہ ہر لمحہ زندگی کم ہوتی ہے ، اس کا احساس آپ نوجوانوں کو نہیں ہے، لیکن مجھ کو ہے ، مجھے معلوم نہیں کہ میری زندگی کی روشنی کب ختم ہوجائے گی۔ ہر لمحہ میں موت کے قریب جاتا ہوں لیکن آپ کی محفل میں آتا ہوں تو زندہ رہنے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔ عمر کم ہوتی ہے لیکن زندگی بڑھ جاتی ہے ، کہیں تو کوئی آواز اٹھے، کوئی تو بولے کہ میرے ملک کے ساتھ ہو کیا رہا ہے ۔ وہ قوم جس کو سینکڑوں ہزاروں سالوں سے دبا کے رکھا گیا پھر ہمارے بزرگوں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک سانجی ریاست کا ملک بنائیں گے ۔ ہمارے خاندان کے لوگوں نے بھی ہم کو چھوڑ دیا اور جناح کے ساتھ چلے گئے اور میری ماں اس نے کہا کہ نہیں ہم سانجی وراثت میں رہیں گے ، یہ وہ گناہ کیا کہ جو کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ اس ملک میں فخر کیسے کریں کہ جہاں نوجوان بچیوں کا ہر تین منٹ کے بعد ریپ ہوتا ہو اور اس میں 90 فیصد دلت طبقہ سے تعلق رکھتی ہوں ، غریب طلبہ ہو اور کہیں کہ فخر سے کہو، مجھے تو شرم یہ آتی ہے کہ جو اس وقت حاکم وقت ہے ، ایسا بدنصیب ملک ہے کہ حاکم وقت یو پی ہو یا مرکز ہو مجھے فخر نہیں شرم آتی ہے ۔ جہاں انصاف ملنے کے عدالتیں خاموش ہوجائیں ۔ پولیس کمیونل اور بدعنوان ہوجائے ۔ عدالتوں کو سنا ئی نہ پڑے ۔ ایجنسیز حکومت کے نام پر کام کریں ، پارلیمنٹ آئین کے خلاف کام کریں ، ایسے ملک کو میں کیسے کہوں کہ مجھے بڑا درد ہے۔ مجھے معاف کیجئے گا کہ اپنے مرنے سے پہلے میں یہ کہہ جارہا ہوں کہ مجھے اپنے دیش پر اب ناز نہیں ہے ، ناز اس دن ہوگا ، جس دن آپ کھڑے ہوں گے۔ اگر آپ کھڑے ہوگئے اور آپ نے الیکشن کے وقت میاں کا منہ دیکھ کر اور ہندو مذہب کو خطرہ میں سمجھا تو آپ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔ سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ جب آپ ووٹ دینے جاتے ہیں ، بیٹھا تو ہے میرا بھائی سنجے سنگھ اکیلے لڑتا ہے ، کتنے لوگ ساتھ ہے اس کے، میں اپنی قوم کو بتاتا ہوں ،میرے ساتھ کوئی نہیں ہے اس لئے کہ میں محبت کی زبان بولتا ہوں۔ میرا ایک ساتھی اویسی ایسی زبان بولتا ہے کہ مسلمان کھڑا ہے ، اس کو ٹیلی ویژن بھی دکھاتا ہے ، وہ بٹوارے کے کام بھی کرتا ہے ۔ اللہ کے واسطے سوچنا شروع کیجئے، مل کر لڑیئے ، اب کوئی اور وقت آنے والا نہیں۔ 2024 کے بعد اس ملک میں کوئی الیکشن نہیں ہوگا اور الیکشن ہوا بھی تو جو خریداری آپ نے دیکھی مہاراشٹرا میں اور جو آپ نے جھارکھنڈ میں دیکھا ، تیسرا عمل ان کا بہار میں گیا ۔ وہاں بھی یہی ہونے جارہا ہے ۔ اس لئے سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ بابا صاحب کے ہندوستان کا تصور کیسے کیا تھا ۔ آپ یوروپ جائیں گے ، امریکہ جائیں اور یوروپ کے کسی حصہ میں جائیں گے کہ اس میں بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو یوروپ گئے ہوں گے ۔ ہر ملک اس کا ایک مذہب ہے سب کرسچن ہے ، سب کا کھانا ایک ہے ، سب کا لباس ایک ہے ، جس کی زبان بدل گئی وہ ملک بدل گیا۔ اگر آپ اطالوی بولتے ہیں تو اٹلی ہے، اگر فرانسیسی بولتے ہیں تو فرانس ہے اور جمنسٹ بولتے ہیں تو ڈنمارک ہے۔ بابا صاحب نے گلدستہ ایک ایسا بنایا جو کنیا کماری سے کشمیر تک جو زبان ملتی ہے نہ مذہب ملتی ہے نہ کلچر ملتا ہے اور ہم سب کہتے تھے کہ میرا بھارت مہان ۔ آج یہ جو حضرات آئے ہیں انہوں نے اس کے پرخچے اڑادیئے۔ میں نے بہت وقت ہندوستان کے باہر گزارا ہے ۔ سب کا سینہ پھولتا تھا جب کہتے تھے کہ میں ہندوستانی ہوں، یہ ملک کیسے چل رہا ہے۔ اس وقت یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے کیا کیا۔ اب دیکھ میرے لئے اس لئے بہت اہم ہے کہ ہم سب سے کہتے تھے کہ ہمیں اختیار ہے اپنی یونیورسٹی چلانے کا ، ہمیں اختیار ہے ہمارے مدرسے چلانے کا ، مدرسوں پر جیسے کہا بلڈوزر چلتا ہے۔ یونیورسٹی کی حالت یہ کردی گئی کہ وہاں بجٹ 65 کروڑ سے گھٹا کر 9 کروڑ کردیا گیا۔ ہم بول نہیں سکتے کہ نہ جانے کس دن ہمیں یہ کہہ دیا جائے ہمارا پاکستان سے کوئی رابطہ پیدا ہوگیا ہے۔ میں جانتا ہوں میں نے تو بہت بزرگوں کو بھی دیکھا ، پوری زندگی جناح اور پاکستان کو گالیاں دیتے برا بھلا کہتے کہتے زبان خشک ہوگئی ، آج مجھ سے ایک آئی جی کے آفیسر نے کہا کہ آپ بولتے بہت ہیں ، میں نے کہا جو کرنا ہے کرلو، میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے بیڈ پہ مروں یا جیل میں مروں ، میں اس کیلئے تیار ہوں۔ اگر یہ فیصلہ آپ نہیں کرتے ، اگر آپ نے کچھ جائز کماکے رکھا ہے ، گھر بناکے رکھا ہے تو آپ کے اوپر پاکستانی ہونے کا داغ تو نہیں لگے گا لیکن نہ جانے کس طرح کے الزامات لگیں گے اور اس کی تصدیق کرنی ہے تو جایئے جیلوں کا سروے کر کے دیکھ لیجئے ۔ 70 فیصد مسلمان یا دلت جیلوں میں سڑ رہا ہے ، مل کر لڑنا پڑے گا آپ کو ۔ میں آخر میں آپ سے صرف یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے کو بچاکے رکھئے ۔ اس وقت کا ماحول کچھ اس طرح کا ہے کہ سنجے بھائی ’’پڑی ہے لاش تعصب کے دوراہے پر مگر ، ایک جنازہ ہے جو قوموں سے اٹھائے نہ بنے۔ اس تعصب کو دل سے نکال دیجئے ۔ یہ کیسا ملک ہے کہ انسان انسان کو مار کر جشن مناتا ہے اور منتری ہار پہناتا ہے۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں معصوم کا قتل عام کیا جاتا ہے جہاں دلت کی بیٹی کو جلا دیا جاتا ہے اور پھر اس کو منتری بنایا جاتا ہے ۔ کیسے کہیں کہ یہ ملک بڑا شاندار ملک ہے ، ہوسکتا ہے کہ میرے ان الفاظ سے مجھ پر دیش دروہی کا مقدمہ چلے ، میں اعلانیہ کہتا ہوں کہ آج کی حکومت پر مجھے فخر نہیں ہے ، درد ہے ، شرم ہے اور مایوس ہوں۔ میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ مذہب کو دل سے نکال دیجئے ، میں خود نمازی آدمی ہوں ، نماز پڑھتا ہوں ۔ سنجے بھائی کو بھی نہیں معلوم ہوگا ، میں ڈرامہ نہیں کرتا ہوں ، جو آدمی پوجا کرتا ہے جس کو مانتا ہے ، اس کے دھرم کا مسئلہ ہے، نہیں مانتا ہے اس کے دھرم کا مسئلہ ہے لیکن انسان سب سے پہلے انسان ہے اور اگر ہم ہندوستانی ہے تو سب سے پہلے ہندوستانی ہے۔ ہم کو جوڑنا پڑے گا ، ایسا نہیں ہے کہ ہم نے کوشش نہیں کی ہے ، جوانی سے لیکر بہت سے دلت بھائیوں کے ساتھ رہا ہوں۔ میری بڑی خوش نصیبی ہے کہ کانشی رام سے بھی میرا رابطہ رہا ہے ۔ اگر آپ کو یاد ہو 1967 میں لکھنو میں پہلی بار ڈاکٹر فریدی نے ایک سمیلن کیا تھا اور میں اس کا سنچالک تھا ، جب میں ہندوستان واپس آیا 14 سال کے بعد اور کانشی رام نے بلایا اور کہا کہ تم کہاں چلے گئے تھے ، میں نے کہا کہ میں ہندوستان سے باہر تھا ، ایمرجنسی میں میرے نام وارنٹ جاری کیا گیاتھا اور بھاگتے بھاگتے یہ ملک چھوٹ گیا ، کہا میرے ساتھ آجاؤ اور میں نے ڈی ایس فورس اس کنونشن کے بعد بنائی تھی جوتم نے لکھنو میں سفید بارہ دری میں کی تھی ۔ کانشی رام جی نے ایک مومنٹ چلایا تھا وہ موومنٹ جو امبیڈکر کی سوچ تھی ۔ لیکن کچھ ہوا ایسے ، ہما رے بزرگوں نے بڑے کارنامے کئے تھے ، مولانا آزاد سے لیکر عبدالرحمن نہ جانے کتنوں نے قربانی دی ہے ۔ پھر ہمارے ایسے رہبر آئے ہماری قربانیوں پر پانی پھر گیا اور آپ کے کچھ ایسے لیڈر آئے ، آپ کی قربانی آپ کے منہ میں رکھ کر چلے گئے ۔ آپ سمجھ نہیں پائے ۔ اب دونوں بے سہارا قوم ہاتھ ملائیں ، دوسری قوموں کو ساتھ جوڑیں ، اور دستور کو بچائے ، آئین کو بچائیں جس نے امبیڈکر نے اپنی پوری قوت لگاکے اس حسین ملک کا تصور کیا تھا ۔ اگر اس کانسٹی ٹیوشن ختم ہوگیا تو نہ آپ بچیں گے نہ ہم بچیں گے ، نہ یہ ملک بچے گا ، بس ایسا ضرور ہوا ہے کہ کچھ سیاسی لوگوں نے ایک بزرگ نے بھی کہا تھا کہ ہم فلاں سے ملے ، فلاں سے ملے، حقیقت تو یہی ہے ، یہی وہ لوگ ہے جنہوں نے عزم سے عزم کا مطلب یہی ہے کہ ہمیشہ سے ۔کبھی نقابیں ڈال کر ، کبھی لبادہ اوڑھ کو ان کو بچائیں۔ بہت بہت شکریہ اور جب تک سانس ہے آپ کے ساتھ رہے گی ، بہت سفر نہیں کرسکتا لیکن قلم سے ، زبان سے ، دل سے ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گا۔