نئی تعلیمی پالیسی اور مدارس|| از قلم: مولانا محمد ولی رحمانی صاحب

,

   

نئی تعلیمی پالیسی اور مدارس|| از قلم: مولانا محمد ولی رحمانی صاحب (جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

کرونازدہ دورچل رہاہے، ’’علیحدگی‘‘ سب کامقدر بنی ہوئی ہے ،ایسے حالات میں ’’نئی تعلیمی پالیسی ‘‘سامنے ہے ،امید ہے کہ فکرمند اور دردمند اہل علم اسکا جائزہ لے رہے ہوں گے ،اور چیزیں چھن چھن کر باہر آئینگی ـــــ انہیں حالات میں سنت کبیر نگر (یوپی )کی ایک خبر اہل تعلق نے دی اور تصویر بھی بھیجی ،جسمیں ایک صاحب پڑھا رہے ہیں، چند طلبہ پڑھتے نظر آرہے ہیں ۔گشتی پولیس عملہ پہونچا، اسکی نظر پڑگئی، اور پولیس عملہ کووڈ۱۹ کی ہدایات اور آداب کے پیش نظر پڑھا نیوالے عالم کو گرفتار کرلیا، نہ یہ سناکہ طلبہ کتنے ہیں نہ یہ دیکھا کہ سیلف ڈسٹنسنگ ہے یا نہیں ۔ یہ ایک نمونہ ہے حکومت اورسرکاری مشنری کے جبر کا ـــــ یہ پس منظر ذہن میں رکھئے اورنئی قومی تعلیمی پالیسی پر غور کیجئے ، پالیسی کے ان صفحات میں کئی ایسی سطریں نظر سے گذرگئیں ،جن پر انگلی رکھی جانی چاہئے ،نہ صرف ایک مسلمان کی حیثیت سے، بلکہ ایک ہندوستانی کی حیثیت سے بھی!۔ وہ پوری تنقیح بعد میں آئیگی ،ابھی ذکر خیر مدارس کا ہے ۔ پچھلی حکومتوں میں بھی مدارس کے سلسلہ میں ’’رام نام ستیہ ہے‘‘ کی تدبیر کی جاچکی تھی، دور تھا پنڈت جواہر لال نہرو کا، وزارت تعلیم نے لازمی پرائمری تعلیم کی اسکیم شروع کی ،والد ماجد حضرت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی ؒنے خطرہ کی بو بھانپی ،اور ملک کی اہم شخصیتوں کے نام خطوط بھیجے ، جن میں مجاہد ملت حضرت مولان احفظ الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے اورڈاکٹر ذاکر حسین صاحب مرحوم بھی ۔بات چلی اورچل پڑی ـــاس اسکیم کافائد ہ یہ تھاکہ ملک کا ہربچہ لازمی طریقہ پر اسکول پہونچ جاتا، اور دس گیارہ برس کی عمر تک اسکول میں تعلیم حاصل کرتا، اسکی تعلیم کا رخ متعین ہوجاتا، اسطرح مکاتب ختم ہوجاتے ، مدارس تدریجاً بند ہوجاتے پھر بڑے مدارس بھی وقت کے ساتھ سمٹ جاتے ۔ والد ماجد رحمۃاللہ کاکہنا یہ تھاکہ لازمی پرائمری تعلیم نافذہو، مکتب اورمدرسہ کوبھی لازمی تعلیم کاحصہ مانا جائے ۔ اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ مکاتب اور مدارس حکومت کی نگاہ میں تعلیمی ادارے ہیں ،حضرت مولاناحفظ الرحمن صاحب اورحضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب نے بڑی کوششیں کیں ،کئی وفود نے وزیر تعلیم اوروزیر اعظم سے ملاقاتیں کیں نتیجہ یہ ہؤا کہ اس وقت مدارس کی تعلیم کو عملاً تعلیم مانا گیا،اور مرکزی حکومت کی وہ اسکیم صرف پرائمری اسکول کھولنے اور ٹیچر بحال کرنے تک محدود رہی، کہیں کہیں صوبائی حکومتوں نے ان اسکولوں کی کچھ عمارتیں بھی بنوائیں ۔ دوسرا مرحلہ اس وقت آیا، جب رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ آیا، اور اسمیں یہ پابندی رکھی گئی کہ چھ سے اٹھارہ سال تک کا انسان لازماً سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھاکریگا ـــــ میں نے ایکٹ پڑھکر بہت سے نمائندہ حضرات کوخط لکھا، اورپورے معاملہ کوسمجھانے کی کوشش کی ، جناب کپل سبل صاحب اس زمانہ میں ہیومن ریسورس منسٹری کے وزیر تھے ،اسی سلسلہ میں ایک وفد کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضرہؤا۔ وہاں باتیں کم توتکار زیادہ ہوئی ہم لوگ ناکام لوٹے ،مگر نامرادنہ ہوئے ۔دل نے یہ کہا ـ ــ؎ اورکھل جائینگے دوچار ملاقاتوں میں ــ میں مختلف وفود کے ساتھ ملتارہا، بات سونیاگاندھی تک لے گیا،ان کی مداخلت کاری نے سہارا دیا ہم لوگوں کی باتوں میں وزن بھی تھا، جسے کپل سبل صاحب جیسے باوزن سمجھ گئے ،ایکٹ میں ترمیم ہوگئی ، مدارس اور ویدک پاٹھشالہ کو بھی تعلیمی ادارہ مان لیا گیا۔ اور مدارس سے وہ خطرہ ٹل گیا۔ نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ میں مدارس کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے ،مرکزی حکومت نے اس پالیسی میں ایک تویہ کیا ہے کہ اسکول کی تعلیم کی ساری ذمہ داری اپنے سرلینے کی کوشش کی ہے اوراسکول ،کالج اور یونیورسٹی کوخود کنٹرول کرناچاہا ہے جبکہ تعلیم کنکرنس لسٹ میں ہے یعنی یہ صوبائی حکومت کا بھی موضوع ہے اورمرکزی حکومت کابھی ! ـــــ نئی پالیسی میں دوسری چیز یہ کی گئی ہے کہ تین سال کی عمر سے بچوں کو اسکول میں تعلیم دی جائیگی ، اور اسی عمر سے بچے اسکول جانے لگیں گے ،اور تین سال کے بعد سے اگلے ہر ایک سال کیلئے نئی قومی تعلیمی پالیسی میں رہنمائی موجودہ ہے ـــــ ابھی جو پرائیوٹ اسکول (پلس ٹو تک کے معیار ) کام کرہے ہیں ،اور جنکی وجہ سے ان طلبہ کاتعلیمی معیار عمومی طور پر بہتر ہے، جو پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں ، یہ سارے اسکول مرکزی حکومت کے بنائے جانیوالے ادارہ کی نگرانی میں آجائینگے ،اور سارے انتظامات اسی ادارہ کے ماتحت انجام پائینگے ،الفاظ ابھی جونسے استعمال کئے جائیں ، اورکتنا ہی بچ بچا کر لکھاجائے مگر مطلب واضح ہے کہ پرائیوٹ اسکولوں کے دست و بازو باندھ دیئے جائینگے ،سرکاری کارندے جب چاہینگے کمیٹی بدل دینگے اوریہ ’’معیاری تعلیم ‘‘کے نام پر کیا جائیگا، اسطرح جو ادارے آزادانہ کام کررہے ہیں اور عام طور پر اچھی تعلیم دے رہے وہ سرکاری کارندوں کے دستبرد سے محفوظ نہیں رہ سکینگے۔ آئین ہند کی بنیادی دفعہ ۳۰پر اس تعلیمی پالیسی میں کچھ نہیں کہا گیاہے ، میری رائے ہے کہ آئین کی اس اہم دفعہ کوباقی رکھا جائیگا، مگر اسکے قانونی اطلاق کو محدود تر کردیا جائیگا، جیسے اسی دفعہ کے ساتھ یہ بھی آئین میں موجود ہے کہ دفعہ ۳۰ کے تحت چلنے والے اداروں کوحکومت سے اسی طرح امداد ملے گی، جس طرح سرکاری اداروں کوملا کرتی ہے، مگر اس دفعہ کی عمومیت کو عدالت کے فیصلہ کے ذریعہ محدود کردیا گیا ہے ۔کچھ اسی طرح مرکزی حکومت قینچی چلائیگی ،اور لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے قائم کئے ہوئے اسکولوں پر اپنا مکمل کنٹرول بنائیگی اورآئین میں دئے گئے لسانی اور اقلیتوں کے اس حق کوختم کردیگی کہ وہ اپنے ادارے بنائیں اور اس کا نظم و انتظام (ایڈمسٹر ) چلاتے رہیں ۔ آئین کی اسی بنیادی دفعہ ۳۰ کے دائرہ میں وطن عزیز کے سارے مکاتب اورمدارس کام کررہے ہیں ، جب اس دفعہ میں انکروچمنٹ (ناجائز دخل قبضہ ) ہوگا اور معیاری تعلیم کے نام پر ہوگا تو یہ مرکزی حکومت ۲۰۳۰ء تک کیا کیا کرے گی؟آسانی سے اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے! عالمی ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کی اس بحث میں ابھی نہیں پڑنا چاہتا کہ بچہ کی تعلیم کی ابتداء کس عمر میں ہونی چاہئے ، گرچہ اسمیں بڑی اکثریت کی رائے ہے کہ بہت کم عمری میں بچوں کی پیٹھ پر بستہ کا بوجھ نہ ڈالا جائے ، یہ گفتگو الگ تجربہ کار رائے کا موضوع ہے ـــ *لیکن بھارت میں اتنے اور ایسے اسکول بنادیئے جائیں ،جہاں تین سال کے بچے اور بچیوں کی تعلیم کا عمدہ نظم ہوجائے ، اور اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے سر پر آر ایس ایس اور بی جے پی کے رضاکار ڈنڈا لیکر پہونچ جائیں کہ فلاں فلاں گھر کابچہ بچی اسکول میں داخل نہیں ہوئے ہیں ، پڑھ نہیں رہے ہیں توآپ خود سونچئے ہیڈ ماسٹر اس وقت کیا کرے گا؟اور بچے اور بچیاں مکتب اور مدرسہ کارخ کرسکیں گے ؟ بہت جلد وہ وقت آنیوالا ہے جب مکتب اورمدرسہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنیوالوں کوآر ایس ایس کے رضا کار لاٹھی بردار کارندے ہیڈماسٹر کے ذریعہ مکتب اورمدرسہ سے طلبہ کوچھڑا کر اسکول پہونچا دینگے اورجو کچھ دینی تعلیم و تربیت کاسلسلہ ابھی جاری ہے اورمکاتب اور مدارس کے ذریعہ کام چل رہا ہے ،وہ بند ہو جائیگا ـــــ سمجھنے والے پورے طور پرسمجھ رہے ہیں کہ مرکزی حکومت نہ جوانوں کی نوکری کانظم کرسکتی ہے نہ ملک کی معیشت سنبھال سکتی ہے اور نہ اقتصادی صورتحال کو چست و درست بناسکتی ہے ، وہ بس نوجوانوں سے ڈنڈا برداری کا کام لے سکتی ہے ،اور دیش بھکتی کے نام پر ایسی حرکتوں کوانجام دلانے کا گرُ جانتی ہے ، وہ اصل مسائل سے نوجوانوں کے ذہن کو ہٹائیگی اور اس طرح کی حرکتوں میں مشغول رکھے گی ۔ پھر اسے بھی نظر انداز کرناغلطی ہوگی ،کہ پچھلے برسوں میں افسروں کا جو ذہن بنا ہے ،اسکے پیش نظر غور کرنا چاہئے ،کہ اگرکوئی ڈسٹرک ایجوکیشن افسر ہیڈماسٹروں کوایک سرکلر بھیجدے کہ تین سال یااس سے زیادہ عمر کاکوئی بچہ ؍بچی اسکول میں ایڈمیشن سے نہ رہ جائے ،جو ہیڈماسٹر اسپر توجہ نہیں دے گا، اسکی تنخواہ روک دی جائیگی ـــــ کیایہ نسخہ ہیڈماسٹر کودوڑنے پر مجبورنہیں کردیگا۔ اور ایسا ڈی ای اویہ دعوی نہیں کرے گاکہ ’’اسے سکچھا وبھاگ پرُسکرت کرے ، اسنے شت پرتی شت نامانکن کال کچھ ارجت کرلیا ہے‘‘ یہ سب امکانی صورتحال ہیں ،جو پیش آئینگے ،میراطویل تجربہ یہی بتاتاہے ۔اسکے لئے ابھی سے فکر کرنی چاہئے ،حوصلہ اورہمت کے ساتھ بڑے پیمانہ پرپہلے فکر مندی اور راہ عمل مرتب کرنی چاہئے ،اورلانبی پلاننگ کے ساتھ اقدامات ابھی سے شروع کردینے چاہئیں،خاص کر خودکفیل مکاتب کانظم ہرآبادی میں ضروری ہے، تاکہ دین کی بنیادی معلومات اور اردو اگلی نسلوں میں زندہ رہے۔

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ