نئے سال میںمعیشت پر توجہ ضروری

   

ایک پیسے کی آمد نہیں بیس آدمی روٹی کھانے والے موجود
مقام معلوم سے کچھ آئے جاتا ہے جو بقدر سد رمق ہے

ہم سال 2022 کے اختتام تک پہونچ چکے ہیںاور 2023 میں داخلہ ہوا ہی چاہتا ہے ۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے ملک کی معیشت کی جو حالت ہوئی ہے اس نے عام آدمی پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں۔ کئی عوامل ایسے رہے ہیں جن کی وجہ سے ملک میں مہنگائی میںاضافہ ہوا ہے ۔ عوام کی قوت خرید میں کمی آئی ہے ۔ لوگ ضروریات زندگی کی تکمیل کیلئے بھی جدوجہد کرتے نظر آئے ہیں۔ کارپوریٹس شعبہ پر حکومت کی مہربانیوں کا سلسلہ جاری رہا اور عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے اقدامات کئے جاتے رہے ۔ عوام کی معیشت بری طرح سے متاثر ہوئی ہے ۔ ملک پر لاکھوں کروڑ روپئے کا قرض بڑھ گیا ہے ۔ ہندوستان میں ہر پیدا ہونے والا بچہ پہلی سانس کے ساتھ مقروض ہوجائیگا ۔ حکومتیں اپنی واہ واہی بٹورنے میں لگی ہیں۔ حقیقی معنوں میں معیشت کو سدھارنے اور بہتر بنانے پر توجہ کرنے کی بجائے تشہیر اور دکھاوے کے اقدامات پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے ۔ کئی گوشوںسے حکومت کو توجہ دلائی جاتی رہی ہے کہ وہ معیشت کو مستحکم کرنے کے اقدامات کرے ۔ عوام کو راحت فراہم کرے ۔ اس کے علاوہ کئی اور طرح کے اقدامات کی بھی حکومت سے مانگ کی جاتی رہی ہے لیکن حکومت نے ابھی تک اس جانب توجہ نہیں دی ہے ۔ اب جبکہ ہم 2022 کو وداع کرتے ہوئے 2023میں داخل ہونے والے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس جانب توجہ کرے ۔ معیشت کو مستحکم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ ایسے منصوبے تیار کئے جائیں جن سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی پیدا ہوجائے اور عوام کو راحت ملنے کی سمت کچھ پیشرفت ہوسکے ۔ عوام جو مسلسل معاشی بوجھ بررداشت کرتے رہے ہیں انہیںر احت دیتے ہوئے ان کے بجٹ کو بھی بہتر بنایا جائے ۔ ان کی زندگیوں میںکچھ بہتری لانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ جب تک ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے جامع پالیسی اختیار نہیں کی جائے گی ۔ مسائل کا اعتراف نہیں کیا جائیگا اور ان کی یکسوئی کیلئے سنجیدگی سے اقدامات نہیں کئے جائیں گے اس وقت تک عوام کی زندگیوں میں بہتری کی کوششوں میں کوئی بھی کامیابی ملنی ممکن نہیں ہے ۔
2022 کے اوائل سے جب ملک میںکورونا کی پہلی لہر آئی تھی ملک کی معیشت پر اور بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ عام آدمی کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے ۔ کارپوریٹس نے تاہم کورونا اور لاک ڈاون کے عرصہ میں بھی پہلے سے زیادہ دولت کمائی ہے ۔ ان کی آمدنی میں دو دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوئی ہے ۔ مٹھی بھر کارپوریٹس کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے تاہم کروڑوں ہندوستانی ایسے ہیں جو مسائل کا شکار ہیں۔ ان پر مسلسل معاشی بوجھ عائد ہوتا جا رہا ہے اور ان کی ملازمتیں بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ ملک کے کئی ایسے شعبہ جات اور بڑے اور معروف ادارے اور کمپنیاں ہیں جو اپنے ملازمین کی تعداد میں تخفیف کرتی جا رہی ہیں۔اس کا بھی اثر ہندوستانی مارکٹ پر پڑ رہا ہے ۔ اب جبکہ ہم 2023میں داخل ہو رہے ہیں تو یہاں بھی ہمارے لئے ایسا لگتا ہے کہ کئی مسائل سر اٹھائے تیار ہیں۔ نئے سال کے آغاز سے قبل ہی کورونا کی ایک اور امکانی لہر کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں عوام میں خوف پیدا ہوگیا ہے ۔ اس کے مارکٹ پر بھی اثرات مرتب ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سے عوام کے معیار زندگی پر بھی اثرات مرتب ہونگے ۔ لوگ اپنی ملازمتوں اور اپنی آمدنی کے تعلق سے فکرمند ہونے لگے ہیں۔ طرح طرح کے اندیشوں کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ان کو دور کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے اور عوام میں اعتماد پیدا کیا جانا چاہئے ۔ انہیںکسی طرح کے منفی اندیشوں کا شکار ہونے سے بچانے پر بھی توجہ دی جانی چاہئے ۔
اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلہ میں ہندوستانی روپیہ کی قدر میں جو گراوٹ آرہی ہے اس کو روکنے کے اقدامات بھی کئے جانے چاہئیں۔ حکومت کے سامنے بھی کئی عوامل ہیں جن میںروس۔ یوکرین جنگ ‘ چین کی صورتحال ‘ ڈالر کی قدر میں اضافہ اور بین الاقوامی مارکٹ میں خام تیل کی قیمتیں شامل ہیں۔ ان تمام عوامل کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت کو منصوبہ سازی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ پیش آنے والی امکانی مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے ہم تیار رہ سکیں۔ ان مشکلات پر قابو پایا جاسکے۔ صرف زبانی جمع خرش اور اعداد و شمار کے الٹ پھیر سے صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی ۔ حکومت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔