جی حضوری کا اعزاز ہے چند روز
پھر ملیں گی انھیں خوب رسوائیاں
ملک میں نئے فوجداری اور تعزیری قوانین کا آج سے اطلاق ہو رہا ہے ۔ اس سلسلہ میں مرکزی حکومت کی جانب سے فیصلہ کرلیا گیا ہے اور یکم جولائی 2024 سے نئے قوانین پر عمل آوری کا آغاز کیا جا رہا ہے ۔ حکومت نے فوجداری قانون، انڈین پینل ( آئی پی سی )کوڈ اور کریمنل پروسیجر کوڈ ( سی آر پی سی ) کی جگہ نئے قوانین بھارتیہ نیائے سنہیتا اور بھارتیہ ناگرک سرکھشا سنہیتا کو یکم جولائی سے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔نئے قوانین پر عمل آوری کے آغاز سے قبل یعنی 30 جون 2024سے قبل جو مقدمات اور معاملات درج کئے گئے ہیں ان کا تصفیہ سابقہ قوانین یعنی آئی پی سی اور کریمنل پروسیجر کوڈ کے تحت ہی کیا جائیگا جبکہ یکم جولائی سے جو مقدمات اور معاملات درج ہونگے وہ بھارتیہ نیائے سنہیتا اور بھارتیہ ناگرک سرکھشا سنہیتا کے تحت ہونگے اور ان کے مطابق ہی ان کی یکسوئی اور تصفیہ کیا جائیگا ۔ حکومت نے اس معاملے میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کی جارہی نمائندگیوں اور اپیلوں کو قبول نہیں کیا ہے ۔ کئی گوشوں اور اپوزیشن جماعتوں سے حکومت سے اصرار کیا جا رہا تھا کہ چونکہ یہ قوانین سابقہ لوک سبھا میں جلد بازی میں بنائے گئے ہیں اور ان پر قابل لحاظ مباحث نہیںہوئے ہیں۔ ایوان میں تفصیلی غور و خوض نہیں کیا گیا ہے اس لئے ان پر عمل کو معرض التواء میں رکھا جائے ۔ پارلیمنٹ میں دوبارہ ان پر مباحث کروائے جائیں۔ اپوزیشن کی رائے کو سنا جائے ۔ اگر اس میں قابل قبول تجاویز ہوں تو ان کو قبول بھی کیا جائے ۔ اس کے بعد ہی ان قوانین پر عمل آوری کا آغاز کیا جانا چاہئے ۔ اس سلسلہ میں کچھ جماعتوں اور ان کے قائدین کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کو مکتوب بھی روانہ کیا گیا ہے ۔ حکومت نے اس نمائندگی کو قبول کرنا تو دور کی بات ہے ان مکتوبات کا کوئی جواب تک نہیں دیا ہے اور نہ ہی عوامی سطح پر ان پر کسی رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے ۔ اس طرح ایک بار پھر یہ واضح ہوگیا ہے کہ حکومت انتہائی اہمیت کے حامل مسائل اور امور میںبھی اپوزیشن کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ۔
قوانین میں تبدیلی اور طریقہ کا بدلاؤ وقت کے مطابق ضروری ہو بھی سکتا ہے ۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم جس طریقہ سے قوانین تیار کئے گئے ہیں ان پر سوال پیدا ہو رہے ہیں اور ان پر عمل آوری میں حکومت نے جس جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی درست نہیں کہا جاسکتا۔ یہ شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ چونکہ سابقہ مقدمات سابقہ قوانین کے مطابق طئے کئے جائیں گے اور نئے مقدمات کی یکسوئی کیلئے نئے قوانین کا سہارا لیا جائیگا تو اس سے قانونی حلقوں میں الجھن اور کنفیوژن پیدا ہوسکتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں مقدمات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے اور انصاف رسانی کا عمل تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے ۔ ویسے بھی ہندوستان میں عدالتوں پر مقدمات کا اتنا بوجھ ہوگیا ہے کہ مقدمات کی یکسوئی اور انصاف رسانی کا عمل تاخیر کا شکار ہی ہونے لگا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ انصاف رسانی میں تاخیر انصاف رسانی سے محروم کرنے کے مترادف ہے ۔ کئی معاملات میںایسا ہوا بھی ہے کہ مدعی علیہان اس دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد مقدمات کی یکسوئی ہوئی ہے ۔ اس طرح یہ لوگ انصاف رسانی سے محروم ہوگئے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو توجہ اس بات پر مرکوز کرنے کی ضرورت کہ ملک میں عدلیہ اور نظام قانون کو سہل بنایا جائے ۔ عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کی جائے ۔ الجھن اور غیر یقینی صورتحال سے مقدمات کم نہیں ہونگے بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور یکسوئی میں تاخیر کے بھی اندیشے لاحق ہیں۔
جس طرح سے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں کہ بی جے پی اختلاف رائے کو قبول کرنے تیار نہیں ہوتی اور اظہار خیال کی آزادی کو بھی برداشت نہیں کیا جارہا ہے اور نئے قوانین کے تعلق سے یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ ان کے ذریعہ اختلاف رائے اور اظہار خیال کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ان امور کو زیر بحث ضرور لایا جانا چاہئے کیونکہ عوام کے ساتھ نا انصافی کے اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں۔ نئے قوانین کے نفاذ حکومت کی جلد بازی پر بھی کئی سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ سابقہ قوانین کی خامیوں کو دور کرنے کی بجائے مکمل نئے قوانین کا نفاذ حکومت کے ارادوں پر شبہات کا باعث ہے ۔