ہم نے نہ تم کو جانا، قاتل ہو کہ مسیحا
دنیا سے پوچھ لیں گے تم ہو حقیقتاً کیا
تریپورہ کے سابق ڈپٹی چیف منسٹر جشنو دیو ورما کو صدر جمہوریہ ہند شریمتی دروپدی مرمو نے تلنگانہ کا نیا گورنرنامزد کیا ہے ۔ مسٹر ورما بی جے پی کے سینئر لیڈر ہیں تین دہائیو ں سے زیادہ عرصہ سے وہ بی جے پی سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ 31 جولائی کو تلنگانہ گورنر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری سنبھالیں گے ۔ جشنو دیو ورما نے اپنی نامزدگی کے بعد کہا کہ وہ اپوزیشن ( غیر بی جے پی ) جماعتوں کو دشمن نہیں سمجھتے ۔ یہ جمہوریت ہے اور اس میں کئی جماعتوں کو ریاستوں میں برتری اور اقتدار حاصل ہوسکتا ہے اور سبھی کے ساتھ مل کر دستوری ذمہ داری نبھانا ان کی ترجیح ہوگی ۔ جشنو دیو ورما کے بموجب بی جے پی کیلئے ملک کی ہر ریاست میں اپنی حکومت قائم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ کہیں کانگریس تو کہیں ترنمول کانگریس ‘ کہیں شیوسینا تو کہیں کوئی اور پارٹی اقتدار پر فائز ہوسکتی ہے اور تلنگانہ میں کانگریس بھی جمہوری طور پر عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئی ہے ۔ وہ ریاستی سربراہ کی حیثیت سے چیف منسٹر کے مشورہ کے ساتھ کام کریں گے ۔ تلنگانہ کے نئے نامزد گورنر کا یہ بیان ایک مثبت پہل کہا جاسکتا ہے خاص طور پر ان حالات میں جبکہ ملک کی کئی ریاستوںمیں ریاستی حکومتوں اور گورنرس کے مابین اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ دارالحکومت دہلی کے لیفٹننٹ گورنر ہوں یا پھر مغربی بنگال کے گورنر ہوں ‘ کیرالا کے گورنر ہوں یا ٹاملناڈو کے گورنر ہوں ان کے ریاستی حکومتوں کے ساتھ اختلافات ایک سے زائد بار موضوع بحث بنے تھے ۔ جب مہاراشٹرا میں ادھو ٹھاکرے کی حکومت تھی اس وقت وہاں بھی اور تلنگانہ میں کے سی آر دور حکومت میں بھی حکومت اور گورنر کے درمیان سردمہری عروج پر پہونچ گئی تھی ۔ سیاسی قائدین کی جانب سے گورنرس کے خلاف ریاستی امور میں مداخلت کے الزامات عائد کئے گئے تھے ۔ گورنر س کی جانب سے بھی کچھ مواقع پر ایسے ریمارکس کئے گئے تھے جن سے گریز کیا جاسکتا تھا ۔ اس صورتحال میں جمہوری وفاقی طرز حکمرانی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں کئی مواقع پر حکومتوں کی مخالف جماعتوں کے گورنرس نے ریاستوں میں کام کیا تھا لیکن ایسی صورتحال درپیش نہیں ہوئی تھی ۔
گورنرس جہاںریاست کے دستور سربراہ ہوتے ہیں وہیں چیف منسٹر اور ریاستی وزراء عوام کے ووٹ سے جمہوری طور پر منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ دونوں کی اہمیت مسلمہ ہے اور کوئی ایک بھی کسی دوسرے کے وجود سے انکار کرتے ہوئے ماورائے دستور اقدامات نہیں کرسکتا ۔ اس حقیقت کو سبھی کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سیاسی اختلافات جماعتی سطح تک یا انتخابی سطح تک محدود ہونے چاہئیں۔ دستوری عہدوں کی جہاں بات آجائے تو پھر سبھی کا مطمع نظر عوام اور ریاست کی اور بحیثیت مجموعی ملک کی ترقی اور بہتری ہی ہونا چاہئے ۔ سیاسی اختلاف کو عوامی فلاح و بہبود کے کاموںمیں رکاوٹ بننے کیلئے موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ اس طرح سے جمہوری اوروفاقی طرز حکمرانی کے اصول متاثر ہوتے ہیں۔ ملک کے دستور اور قانون میں گورنرس اور ریاستی حکومتوں کے اپنے دائرہ کار واضح کردئے گئے ہیں۔ ان کے اندر رہتے ہوئے ہر کوئی اپنی ذمہ داری نبھانے پر توجہ دے اور دوسروں کو نیچا دکھانے یا سیاسی اختلاف کو مقدم رکھنے سے گریز کرے تو پھر ریاستوں میںبہتر انداز میں کام کاج کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ ریاستی وزراء یا حکومت کے ذمہ داروں کی جانب سے گورنرس کے خلاف تبصرے اور ریمارکس جہاں مناسب نہیں ہیں وہیںگورنرس کی جانب سے بھی جمہوری طور پر عوام کے ووٹ سے منتخب نمائندوں کے کام کاج میںمداخلت کرنے یا رکاوٹ پیدا کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے اور یہی وفاقی طرز حکمرانی کا بنیادی اصول بھی ہے ۔
تلنگانہ میں ڈاکٹر ٹی سوندرا راجن کے بعد سی پی رادکھا کرشنن کو ذمہ داری سونپی گئی تھی جو ان کیلئے اضافی ذمہ داری تھی ۔ اب جبکہ صدر جمہوریہ ہند نے مسٹر جشنو دیو ورما کو تلنگانہ کا نیا گورنر نامزد کیا ہے اور انہوںنے جس طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے تو یہ ایک خوش آئند علامت کہی جاسکتی ہے اور اس کے ذریعہ ریاست میں ایک بہتر اور صحتمند ماحول پیدا ہوسکتا ہے اور عوامی فلاح و بہبود پر حکومت پوری توجہ کے ساتھ کام کرسکتی ہے ۔ جس طرح کے خیالات کا نامزد گورنر نے اظہار کیا ہے اگر تمام ریاستوں کے گورنرس بھی اسی خیال سے اتفاق کریں اور ایسا عمل کرنے لگیں تو ملک بھر میں وفاقی طرز حکمرانی کو استحکام حاصل ہوسکتا ہے ۔