نائب صدر کے انتخاب کی سرگرمیاں

   

زندگانی میں مسرت کی تمنا گویا
وہ دعا ہے جو بھٹکتی ہے اثر سے پہلے
ملک میں نئے نائب صدر جہموریہ کا کل انتخاب عمل میں آنے والا ہے ۔ برسر اقتدار بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد نے مہاراشٹرا کے گورنر سی پی رادھاکرشنن کو اپنا امیدوار بنایا ہے تو اپوزیشن انڈیا اتحاد نے بھی نائب صدر جمہوریہ کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس اتحاد نے سابق سپریم کورٹ جج ‘ جسٹس بی سدرشن ریڈی کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے ۔ دونوں ہی اتحادی گروپس کی جانب سے اپنے اپنے امیدوار کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے سرگرمیوں اور کوششوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ این ڈی اے کو اپنے امیدوار کی کامیابی کا یقین ہے جبکہ انڈیا اتحاد کی جانب سے بھی کوششیں ضرور کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ آثار اور اعداد شمار این ڈی اے امیدوار کے حق میں دکھائی دے رہے ہیں لیکن انڈیا اتحاد نے بھی اپنے وجود کا احساس دلانے اور حکومت کے خلاف زور آزمائی کیلئے اپنے امیدوار کو میدان میں اتار دیا ہے ۔ انڈیا اتحاد کی جانب سے اتحاد میں شامل نہ رہنے والی جماعتوں سے بھی رابطے کرتے ہوئے اپنے امیدوار کی تائید میں مہم شروع کردی گئی ہے ۔ این ڈی اے اتحاد بھی اپنی حلیف جماعتوں کیلئے اجلاس منعقد کرتے ہوئے تائید کو مجتمع کرنے کی کوششوں میں جٹ گیا ہے ۔ اپوزیشن اتحاد کیلئے کانگریس صدر ملکارجن کھرگے عشائیہ کا اہتمام کر رہے ہیں تا کہ ان کی تائید کو یقینی بنایا جاسکے ۔ انڈیا اتحاد کے حوصلے اعداد و شمار کی کمی کے باوجود بلند دکھائی دے رہے ہیں اور اس کی سرگرمیوں اور کوششوں کی وجہ سے برس اقتدار اتحاد بھی اپنے امیدوار کے حق میں پورے زور و شور سے مہم چلانے پر مجبور ہوگیا ہے ۔ انڈیا اتحاد کا کہنا ہے کہ دستور کے تحفظ اور جمہوری عمل کو تقویت دینے کیلئے اس نے نائب صدارتی انتخاب میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دونوں ہی گروپس کی جانب سے چلائی جانے والی مہم کی وجہ سے اعداد و شمار کی حقیقت کے باوجود یہ انتخاب دلچسپ ہوتانظر آر ہا ہے ۔ 9 ستمبر منگل کو نائب صدر جمہوریہ کا انتخاب ہونے والا ہے اور یہ ملک کی سیاست میں ایک اہم مرحلہ سمجھا جا رہا ہے ۔ اس انتخاب کا نتیجہ یقینی طور پر دلچسپ ہونے والا ہے تاہم کچھ گوشے کسی اپ سیٹ کی توقع بھی کر رہے ہیں۔
حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ این ڈی اے اتحاد نے حکومت کو مختلف مسائل کو بنیاد بناتے ہوئے نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ ہر مرحلہ پر حکومت سے تصادم اور ٹکراؤ کی پالسی اختیار کرتے ہوئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔ حال ہی میں قائد اپوزیشن راہول گاندھی کی جانب سے ووٹ چوری کے الزامات اور پھر بہار میں پندرہ دن طویل ووٹر ادھیکار یاترا کے بعد اپوزیشن کے حوصلے اور بھی بلند ہوئے ہیں۔ ایسی جماعتوں سے رابطے بڑھانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں جو این ڈی اے کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی انڈیا اتحاد میں شامل ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ این ڈی اے میں شامل کچھ جماعتوں سے بھی رابطے کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم اس کی تفصیل کا علم نہیں ہوسکا ہے اور نہ ہی ایسی کسی کوشش کی باضابطہ کوئی توثیق ہو پائی ہے ۔ سوشیل میڈیا پر یہ اطلاعات گشت کر رہی ہیں کہ انڈیا اتحاد میں شامل کچھ جماعتیں یا کچھ ارکان پارلیمنٹ نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب میں چونکا دینے والا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر راجیہ سبھا کے ارکان کی جانب سے کسی غیر متوقع فیصلے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے تاہم ابھی کھل کر اور واضح طور پر کسی انحراف کی کوئی اطلاع نہیں ہے ۔ سوشیل میڈیا کی خبروں کے بعد بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد میں داخلی طور پر سرگرمیوں میں اضافہ ضرور ہوگیا ہے اور برسر اقتدار اپنی تمام حلیف جماعتوں اور ان کے ارکان پارلیمنٹ کو متحد رکھنے کی کوششوں میں زیادہ سرگرم ہوگیا ہے ۔
لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے جو ارکان ہیں ان کی تعداد کے مطابق حالانکہ این ڈی اے اتحاد کو اس انتخاب میں سبقت دکھائی دیتی ہے لیکن جس طرح کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں اگر وہ سچ ثابت ہوجاتے ہیں تو پھر مرکز کی نریندر مودی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے اور اس کے استحکام پر بھی اثر پڑسکتا ہے ۔ حالانکہ ابھی واضح طور پر کوئی پیش قیاسی نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کسی اپ سیٹ کا دعوی کیا جاسکتا ہے لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ملک کے نئے نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب کا عمل بہت زیادہ دلچسپ ہوگیا ہے اور اس کا جو بھی نتیجہ برآمد ہوگا وہ ملک کی سرگرم سیاست پر ضرور اثر انداز ہوسکتا ہے۔