نائیڈو کی گرفتاری اور اے پی کی سیاست

   

کانٹوں سے گزرجاتا ہوں دامن کو بچاکر
پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں
پڑوسی تلگو ریاست آندھرا پردیش کی سیاست ان دنوں ایک طرح کی اضطراب آمیز کیفیت کا شکار ہے ۔ خاص طور پر سابق چیف منسٹر و صدر تلگودیشم پارٹی این چندرا بابو نائیڈو کی گرفتاری کے بعد صورتحال میں تبدیلی محسوس ہونے لگی ہے اور سیاسی حلقوں میں بے چینی محسوس کی جانے لگی ہے ۔ ویسے بھی چندرا بابو نائیڈو ‘ ان کے فرزند نارا لوکیش اور دوسرے قائدین ریاست میں پارٹی کو عوام میں ایک بار پھر مقبول بنانے اور عوامی تائید حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے ۔ چندرا بابو نائیڈو بھی ریاست کا دورہ کرتے ہوئے عوام سے ملاقاتیں کر رہے تھے ۔ عوام سے رابطے بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ عوام کے درمیان پہونچ کر جگن موہن ریڈی حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔ تلگودیشم دور حکومت میں انجام دئے گئے ترقیاتی کاموں کا تذکرہ کیا جا رہا تھا ۔ اس کے علاوہ نائیڈو کے فرزند نارا لوکیش بھی ریاست میں پیدل دورہ شروع کرچکے تھے ۔ انہوں نے ریاست کے ایک بڑے حصے کا دورہ کرتے ہوئے عوام سے رابطے کئے ۔ ان کے درمیان پہونچ کر تلگودیشم کیلئے عوامی تائید جٹانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ دونوں کی سرگرمیوں سے ریاست میں برسر اقتدار وائی ایس آر کانگریس پارٹی کیلئے مشکلات پیدا ہونے کے امکانات بھی تھے تاہم اچانک ہی ایک پرانے اسکام میں چندرا بابو نائیڈو کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔ ان کی ضمانت بھی نہیں ہوئی ۔ انہیں گھر پر قید کرنے کی درخواست کو بھی مسترد کردیا گیا ۔ جس طرح سے انہیں اچانک صبح کی اولین ساعتوں میں گرفتار کیا گیا تھا اس کے خلاف عوام میں ناراضگی ضرور پیدا ہوئی ہے ۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کی گرفتاری نے ریاست میں سیاسی حالات کا رخ بدل دیا ہے اور اب وائی ایس آر کانگریس اور تلگودیشم پارٹی کے مابین راست ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ تلگودیشم کیڈر میں بھی اس گرفتاری کے بعد حکومت اور جگن موہن ریڈی حکومت کے خلاف غم و غصہ پیدا ہوگیا ہے ۔ یہی وہ غم و غصہ ہے جسے سیاسی جذبے میں ڈھال کر چندرا بابو نائیڈو عوام کے درمیان پہونچ سکتے ہیں۔
آندھرا پردیش میں بی جے پی بھی اپنے سیاسی قدم جمانے کی جدوجہد میں مصروف ہے ۔ یہ دعوے کئے جا رہے تھے کہ بی جے پی آندھرا پردیش میں تلگودیشم پارٹی کے ساتھ اتحاد کرسکتی ہے ۔ تاہم درمیان میں کچھ دوریاں بھی پیدا ہوگئی تھیں ۔ اب یہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ بی جے پی نے ایک بار پھر اپنے منصوبوں کو پوشیدہ رکھا ہے ۔ بی جے پی ریاست میں بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اسے یہ امید پیدا ہونے لگی ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کی گرفتاری سے ریاست میں نئی سیاسی صف بندیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ اداکار سے سیاستدان بننے والے پون کلیان کی جنا سینا پارٹی نے تلگودیشم پارٹی کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیا ہے اور مشترکہ مقابلہ سے اتفاق کرلیا ہے ۔ جنا سینا سربراہ پون کلیان کا جھکاؤ بی جے پی کی جانب بھی ہے ۔ ایسے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نئی سیاسی صف بندی میں جنا سینا ۔ بی جے پی اور تلگودیشم پارٹی کے مابین اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات کیلئے مفاہمت ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی اور جنا سینا بھلے ہی موجودہ صورتحال کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے تلگودیشم سے اتحاد کرنے تیار ہوجائیں لیکن جہاں تک چندرا بابو نائیڈو کا سوال ہے تو وہ انتظار کرو اور دیکھوں کی پالیسی اختیار کرسکتے ہیں۔ وہ ایک گھاگھ اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ سیاسی حالات کا اندازہ کرنے میں انہیں مہارت حاصل ہے ۔ وہ اپنے منصوبوں اور ارادوں کو ظاہر کئے بغیر صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہی کسی نتیجہ یا فیصلہ پر پہونچ سکتے ہیں۔
فی الحال ریاست میں جو سیاسی صورتحال ہے وہ گنجلک اور پیچیدہ دکھائی دے رہی ہے ۔ ریاست کے عوام میں بھی الجھن پیدا ہونے لگی ہے ۔ ریاست کے عوام اگر حکومت کے کام کاج سے مطمئن بھی ہیں تب بھی ان میں نائیڈو کی گرفتاری کے طرز عمل پر ناراضگی ضرور ہے ۔ خود ریاست کے گورنر نے بھی ان کی اجازت کے بغیر تلگودیشم سربراہ کو گرفتار کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں آندھرا پردیش میں سب سے زیادہ اہم رول چندرا بابو نائیڈو کا ہے اور جب وہ جیل سے رہا ہوتے ہیں اور ان کی ضمانت ہوتی ہے اس کے بعد ریاست کی سیاسی صورتحال میں مزید تیز رفتار تبدیلیوں کی امید کی جا رہی ہے ۔