ناصر اور جنید کو زندہ جلانے کا ظالمانہ واقعہ

   

روش کمار
ناصر اور جنید کو زندہ جلا کر قتل کرنے کا واقعہ اس قدر ظالمانہ ہے کہ اس کا ایک ایک حصہ کانٹے کی طرح چھبتا ہے۔ ہم آج ایک ایسے دور سے گذر رہے ہیں جہاں ہر دن اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں، ہر دن ظالمانہ واقعات دہرائے جاتے ہیں، کوئی ایسا دن ،کوئی ایسا وقت نہیں جو ظلم و جبر سے خالی ہو۔ ناصر اور جنید کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہے۔ ان کے قتل کے ملزمین کے حق میں لوگ جلوس نکال رہے ہیں، ویسے ہی جیسے بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہے، مگر گوتم اور ونود اڈانی کے ساتھ ساری حکومت ، ساری حکمران جماعت کھڑی نظر آتی ہے جو سوال کررہے ہیں ان کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہے۔ ان دو واقعات کے درمیان کوئی میل نہیں مگر دونوں واقعات کو اَن دیکھا کرنے والا ایک ہی ہے اور وہ ہے متوسط طبقہ وہ اس بات کو نہیں دیکھتا کہ بینک آف بروڈہ کا سی ای او اڈانی کے برے وقت میں ساتھ دینے کی بات کررہا ہے، کہہ رہا ہے کہ برے وقت میں اڈانی کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ اڈانی کا برا وقت آیا تو بینک کھڑا ہے۔ متوسط طبقہ جب برے وقت کی وجہ سے قرض چکا نہیں پاتا تو بینک اس کا گھر نیلام کروا دیتا ہے۔ اس کے بعد بھی متوسط طبقہ اڈانی کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ ناصر اور جنید کے ساتھ نہیں جب بھی کسی ناصر اور جنید کو جلایا جاتا ہے تو ہندوستان کا متوسط طبقہ لمبی سانسیں لے کر کہتا ہے کہ پورا ہندوستان ایسا نہیں ہے۔ متوسط طبقہ کی خاموشی اس کی سوچ اور ناصر و جنید کو قتل کرنے جیسی درندگی میں کوئی فرق نہیں۔ ویسے تو آپ محمد اخلاق، پہلو خان کو بھول چکے ہوں گے۔ 2014ء میں پونے میں محسن شیخ کو ہجوم نے مار ڈالا۔ 2023ء میں قتل کا ملزم بری ہوگیا۔ 2015ء میں دادری میں انس، عارف اور ناظم کو مار دیا گیا۔ اسی سال اکتوبر میں اترپردیش کے شہر سہارنپور میں نعمان کو قتل کردیا گیا۔ زاہد رسول بٹ کو مارا گیا۔ اپریل 2016ء میں امپھال میں محمد صدام اور محمد فاروق کی زندگیاں چھین لی گئیں۔ اُمید ہے کہ آپ کو پھولوں کی یہ تصاویر خوبصورت نظر آرہی ہوں گی۔ یہی تو کرتے ہیں آپ، کوئی جلاکر مار دیا جاتا ہے اور آپ گلدستہ میں پھول سجا رہے ہوتے ہیں جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔ ہوا تو تب بھی کچھ نہیں تھا جب مئی 2016ء میں چتور گڑھ میں ابو حسین کا قتل کردیا گیا۔ یہ واقعہ بھی اس وقت قابل نظرانداز تھا تب مارچ 2017ء میں جھارکھنڈ میں محمد مظلوم انصاری اور ان کے دوست کے 11 سالہ بیٹے امتیاز خان کو قتل کرکے ان کی نعشیں درخت سے لٹکا دی گئی تھیں۔ متوسط طبقہ اس وقت بھی واٹس ایپ پر پھولوں کی ان تصویروں کو گڈ مارننگ پیغامات کی شکل میں بھیج رہا تھا۔ اپریل 2017ء میں آسام کے ناگاؤں میں ابوحنیفہ اور ایاز علی کو مار ڈالا گیا۔ اکبر خاں کا چہرہ دکھاتا جسے عمر کے بعد اس کے ہی شہر الور میں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ تبریز انصاری کے قتل کے بعد آپ نے ووٹ تو دیئے ہی ہوں گے، مارنے سے پہلے اسے ’’جئے شری رام‘‘ کا نعرہ لگوایا گیا۔ محمد شیر اور نذیر احمد کے قتل سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہوگا۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو نعشوں پر پھول چڑھاتا ہے لیکن دیکھنا ہی نہیں چاہتا کہ قتل کے پیچھے کی سیاست اور سوچ کہاں سے آرہی ہے۔ قیمتوں پر کنٹرول نہ ہونے کے باعث بیف مہنگا ہے۔ اگر جیت گئے تو بیف کی فروخت کو کنٹرول کریں گے اور قیمتیں کم کریں گے۔ اس لیڈر کا نام برنارڈ مرگ ہے۔ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں یہ خبر شائع ہوئی ہے، پھر ناصر اور جنید کو گاؤ اسمگلنگ کے الزام میں کیوں مار دیا گیا۔ 2017ء میں گاؤکشی اور گاؤ اسمگلنگ کا الزام لگاکر کئی قتل کئے گئے تھے۔ اسی سال کیرلا میں انتخابات ہورہے تھے، ملاپورم سے بی جے پی امیدوار نے کہا کہ اگر جیت گئے تو اچھے بیف کا انتظام کریں گے، انہیں پارٹی سے تو نہیں نکالا گیا پھر ناصر اور جنید کو کیوں قتل کیا گیا۔ 2015ء میں بی جے پی کی قومی عاملہ کی رکن شوبھا نے کہا تھا کہ بی جے پی کیرلا میں بیف کی فروخت اور کھائے جانے کی مخالفت نہیں کرتی بلکہ ان کی پارٹی اس بات کی مخالفت کرتی ہے کہ اسکولوں و کالجس میں بیف کھانے کا تہوار منایا جائے کیونکہ طلبہ وہاں پڑھنے جاتے ہیں، بیف کھانے نہیں۔ ایسے حقائق کو بھی متوسط طبقہ نے نظرانداز کردیا۔ اس کے بعد بھی ہریانہ میں ناصر اور جنید کو گاؤ اسمگلنگ کے شک میں پہلے پیٹا جاتا ہے، پیٹ پیٹ کر اَدھ مرا کردیا جاتا ہے اور پھر گاڑی میں آگ لگاکر جلا دیا جاتا ہے۔ گاڑی میں جنید اور ناصر کو باندھ کر ڈالا گیا، انہیں جلایا گیا، ایف آئی آر راجستھان پولیس نے درج کی ہے۔ منو منیسر رنکوسینی اور لوکیش سمپت گیارہ افراد کے نام ملزمین کی حیثیت سے ایف آئی آر میں درج ہیں۔ اڈانی کے خلاف الزامات کی بارش ہوئی مگر دھاوؤں کی کوئی خبر نہیں لیکن ناصر اور جنید پر گاؤ اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے شک پر کوئی بھی ان کی گاڑی کی تلاشی لے سکتا ہے۔ منو منیسر رنکوسینی ، سریکانت، لوکیش اس گاڑی کی تلاشی لے سکتے ہیں اور دونوں کو جلاکر مار بھی سکتے ہیں۔ ہندوستان کا متوسط طبقہ بھلے ہی گاؤ اسمگلنگ کی سیاست نہ سمجھ پاتا ہو ، لیکن اسے کارپوریٹ شیل کمپنیوں کے ماریشیس ، قبرص سے آپریٹ کرنے میں کچھ بھی غلط نہیں لگتا، متوسط طبقہ اب یہ سمجھنے لگ گیا ہے، یہ بات جان گیا ہے ، یہ ہشیاری متوسط طبقہ کو بہت مبارک، ویسے جب گاؤکشی اور گاؤاسمگلنگ پر آپ اپنے ڈرائنگ روم میں ناصر اور جنید کے قتل کو درست بتائیں تو اس خبر کا ذکر ضرور کریں کہ جولائی 2018ء میں گوا میں بی جے پی کی حکومت تھی۔ ریاست کے وزیر افزائش مویشیان نے کہا کہ حکومت ِ گوا بیف استعمال کرنے کی مخالف نہیں ہے، ان کا خیال ہے کہ کچھ لوگ بی جے پی کو بدنام کررہے ہیں، وہ بیف مخالف ہیں، چاہے سیاح کھائیں یا مقامی لوگ کھائیں، کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ ناصر اور جنید گاؤ اسمگلنگ میں ملوث نہیں تھے، صرف شک تھا، مگر کچھ ملا نہیں۔ اس حالت میں پولیس کے پاس لے گئے تو پولیس نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ اس بارے میں دو باتیں سامنے آئی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ پولیس ناصر اور جنید کے قتل کو روک نہیں پائی۔ پولیس کی موجودگی میں قتل ہوگیا۔ ہندوستان کے متوسط طبقہ کو اڈانی کا ہی ساتھ نہیں دینا ہے۔ جنید اور ناصر کے قاتلوں کا بھی ساتھ دینا ہے۔ آج کے ہندوستان میں ناصر، نذیر نہیں بن سکتا لیکن نذیر کا نصیب بن جاتا ہے، عقلمند کو اشارہ کافی۔