نبوت ایک ایسا منصب ہے جو کوشش یا ریاضت سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا عطیہ اور اس کی بخشش ہے ۔ اﷲ تعالیٰ تبلیغ دین اور اپنے احکامات بندوں تک پہنچانے کے لئے کسی برگزیدہ بندے کو منتخب فرماکر نبوت کے عظیم منصب پر فائز فرمادیتا ہے ۔ امام راغب کے مطابق نبوت اﷲ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان دنیوی اور اخروی فلاح کے لئے سفارت ہے ۔ ( مفردات بذیل نبوت )
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرماکر اسے زمین پر اپنا نائب (خلیفہ) نامزد کیا اور انسان کو بے شمار صلاحیتوں اور استعدادوں سے بہرہ مند فرمایا۔ خالق حقیقی نے یہ بات واضح فرمادی کہ کائنات کا مالک و خالق ، معبود و مسجود اور حاکم اعلیٰ صرف اﷲ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی بندگی و عبادت کے لائق ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے ساری نسل انسانی سے اپنے رب ہونے کا اقرار لیا۔ پھر انھیں یوں ہی نہیں چھوڑا بلکہ ان کی ہدایت و روہنمائی کے لئے سلسلۂ نبوت قائم کردیا تاکہ سارے انسان اپنی ہدایت اور رہنمائی انبیاء سے حاصل کرکے فلاح و کامرانی کی راہ پر گامزن ہوں ۔ نسل انسانی سے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ جو کوئی میرے رسولوں اور نبیوں کی پیش کردہ ہدایت پر عمل کریگا وہ خوف اور غم و حزن سے دوچار نہیں ہونے پائے گا ۔ ( سورۃ البقرۃ ۲؍ ۳۸)
یہ حقیقت بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کی گراں مایہ ذمہ داری صرف مردوں کو عطا کی ہے کوئی عورت کبھی اس منصب عالی پر فائز نہیں ہوئی ۔ ارشاد الٰہی ہے : ’’ہم نے آپ سے پہلے صرف مردوں ہی کو پیغمبر بناکر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے ‘‘۔ (سورۃ النحل ؍۴۳)
انبیاء کرام کو نبوت کی بدولت تمام انسانوں پر برتری اور فضیلت حاصل ہوجاتی ہے ۔ انبیاء پیدائشی نبی ہوتے ہیں ۔ ان کو پیدا ہی منصب نبوت کے لئے کیا جاتا ہے اور منصب نبوت کی استعداد فطری طورپر ودیعت کردی جاتی ہے ۔ انبیاء کی فطرت کامل اور صحیح اور ان کے قلوب مکمل سلیم ہوتے ہیں ۔ نبی کو کسی خارجی تعلیم و تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہ اپنی ودیعت کردہ صلاحیت اور فطرتی مستعداد کی بدولت پر پیش آمدہ مسئلہ کا اﷲ تعالیٰ کی رہنمائی سے حل بیان کرتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ قدم قدم پر اپنے ہونے والے نبی کی ہدایت اور رہنمائی فرماتا رہتا ہے ۔ انبیاء کرام کے پاس علم کا ایک ایسا قابل اعتماد ذریعہ ہوتا ہے جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہوتا ۔ وہ اﷲ تعالیٰ کی وحی و الہام ہے ۔ اُن کی زندگی کا کوئی لمحہ نبوت سے الگ نہیں ہونے پاتا ۔ نبی کی ساری زندگی اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں گذرتی ہے ۔ نبی کے فرائض میں ہے کہ وہ عقائد و عبادات اور مسائل و احکام کی تعلیم دے ۔ لوگوں کے علم میں اضافہ کرے ، جہالت اور ضلالت کو دور کرے ، ترکِ نفوس کے ذریعہ عمدہ اخلاق ، خلوص ، ہمدردی ، نیک دلی اور پاکبازی کی ترویج و اشاعت کرے ۔ شریعت کے اسرار و رموز کی عقدہ کشائی کرے ، تعلیم و حکمت کو عام کرے ۔ انبیاء کرام ہر لالچ اور ہر مادی معاوضے کی خواہش سے پاک ہوتے ہیں ۔ وہ امانت دار ، مخلص اور بے غرض ہوتے ہیں ۔ وہ خدمت حق کا کوئی صلہ اور تبلیغ دین کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے ۔
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی کے مطابق اس دنیا میں نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ برسرعام ثابت کرے کہ وہ نبوت کے رمز شناس ہے اور وہ جو تعلیم دے رہے ہیں وہ گمراہی و غلطی سے پاک ہے … انبیاء کا خطا سے معصوم ہونا اﷲ تعالیٰ کے دیئے ہوئے ضروری علم و یقیں کی وجہ سے ہوتا ہے ۔
لوگو ں کو انبیاء کی عصمت کا یقین ان کی عقلی اور خطابی دلیلوں سے ہوتا ہے ۔ نیز ان کی اعلیٰ کردار ، اور پاکیزہ زندگی ان کی عصمت و پاکدامنی کی منہ بولتی تصویر ہوتی ہے ۔
انبیاء کرام کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نہایت سادہ طبیعت اور سلیم الفطرت ہوتے ہیں ۔ ان کی گفتگو تصنع اور تکلف سے پاک ہوتی ہے ۔ اسی طرح ان کا موضوع گفتگو بھی سادہ اور دلائل بھی سادہ ہوتے ہیں ۔ وہ لوگوں سے ان کی عقل و فہم کے مطابق گفتگو کرتے ہیں تاکہ ہر طرح اور ہر سطح کے لوگ ان کی تعلیم و تربیت سے فائدہ اُٹھاسکیں۔ انبیاء کا کلام خوشگوار میٹھے پانی کی طرح ہوتا ہے جیسے بچہ ، جوان اور بوڑھا ہر عمر کا انسان استعمال کرتا ہے اور اس کا ضرورتمند ہوتا ہے۔ لوگ سادہ مزاج ، جاہل اور ان پڑھ ہوں یا بڑے مہذب و متمدن اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ، انبیاء کرام کی تعلیمات سے سب یکساں طورپر استفادہ کرتے ہیں ۔
اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو حکیمانہ طبائع سے نوازا اور حلم و بردباری کا پیکر بناکر تبلیغ دین کے لئے مامور فرمایا ۔ اﷲ تعالیٰ کے احکام بے خوف و خطر اور بے کم و کاست لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔ نہ تو وہ وقتی ضرورت و مصلحت کا لحاظ رکھتے ہیں اور نہ اُصول ترک کرکے مخالف حالات کے سامنے جھکنا گوارا کرتے ہیں ۔
انبیاء کرام کی دعوت کا اہم حصہ توحید باری تعالیٰ کے علاوہ عقیدئے آخرت رہا ہے ۔ انھوں نے بعث بعد الموت ، حشر ، نشر اور حساب کتاب کی اہمیت بیان کی اور یوم آخرت کے ہولناک اور لرزہ خیز کوائف و احوال نیز جنت کی نعمتوں اور دوزخ کے عذاب سے لوگوں کو آگاہ کیا ، انبیاء کرام کی تبلیغ کی ایک امتیازی خصوصیت ایمان بالغیب کی دعوت ہے ۔ عقل و دانش اور غور و فکر کے اپنے حدود ہیں اور اُمور توحید و آخرت اور ذات و صفات الٰہیہ کی حقیقت ان حدود سے ماوراء ہے ۔ لہذا انبیاء کرام کے ادراکات اور بیانات پر یقین و ایمان ضروری ہوجاتا ہے ۔ ایمان بالغیب ہی کی بدولت یقین محکم اور ایمان کامل نصیب ہوتا ہے اور اسی سے قلبی سکون اور روحانی راحت میسر آتی ہے ۔
انبیاء کرام نے اپنی رسالت و دعوت کے ذریعہ تعمیر انسانیت کے سلسلہ میں بھرپور کردار ادا کیا ۔ انھوں نے عدل و انصاف اور مساوات و اُخوت پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا ۔ اس معاشرہ میں معیار فضیلت ذاتی اوصاف اور انفرادی اعمال ہوتے ہیں اور شریعت کی اطاعت و اتباع سے شرافت اور بزرگی قائم ہوتی ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول کی محبت سے سرشار انسان مکرم و معزز کہلانے کا مستحق ہوتا ہے ۔ اعلیٰ اخلاق اور حسن اخلاق سے انسان کی پہچان ہوتی ہے ۔ والدین سے نیک سلوک ، رشتہ داروں سے رواداری ، ہمسایوں کی خیر خواہی ، کمزوروں اور ناتوانوں سے ہمدردی ، غمزدہ افراد سے غمگساری ، نادار و مفلس افراد کی مالی اعانت، مسکینوں کی دستگیری ، یتیموں اور بیواؤں کی سرپرستی انبیاء کرام کے تشکیل کردہ معاشرہ کی امتیازی خوبیاں ہوتی ہیں۔
انبیاء کرام اپنے ماننے والوں کی تربیت کچھ ایسے انداز سے کرتے ہیں کہ کوئی فرد بھوکا نہیں رہنے پاتا ۔ تعمیر انسانیت سے انبیاء کرام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دنیا سے جور و جفا اور ظلم و ستم کو ناپید کردیا جائے ، ہر شخص کی دادرسی ہو ، ہر شخص کی جان و مال اور عزت و ناموس کی حفاظت کی ضمانت ہو اور شخصی آزادی کی نعمت سے مالا مال ہو ۔
(تفصیل کیلئے دیکھئے دائرۃ المعارف جلد ۲۲ مادۃ : نبوت )