نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ | ازقلم:محمد حارث ابراہیم اکرمی ندوی

   

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے حسن اخلاق کا جو نمونہ پیش کیا ہے اگر ہم اسکا ذرا بھی حصہ اپنائیں گے توساری دنیا کہے گی کہ دیکھو اگر اسلام کے بارے میں جاننا ہے تومسلمانوں کو دیکھو, آج ہمیں جو چاروں طرف سے مار پڑ رہی ہمیں ہرطرح سے ذلیل کیا جارہا ہے، اسکی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اس چیز سے اپنا رشتہ توڑ دیا ہے.مسند احمد کی روایت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رض سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے اخلاق کیا تھے, تو حضرت عائشہ نے فرمایا تھا قران ہی آپ ص کے اخلاق ہیں ( کان خلقہ قران), یعنی قرآن پاک میں جو کچھ بھی آپ ص نے دنیا کے سامنے اس کا عملی نمونہ پیش فرمایا.

ارشاد ربانی ہے

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ(سورۃ القلم :4)

بیشک آپ اخلاق کے اعلیٰ درجے پرفائز ہیں.

سیرت کی کتابوں سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف دوستوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کیاہے. اس سے زیادہ بہترین مثال کون سی مل سکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع نبی ص نے اپنے ایک جملے سے اپنے جانی دشمنوں تک کو معاف کرڈالا, فرمايا(لا تثريب عليكم اليوم إذهبوا فأنتم الطلقاء) آج تمھاری کوئی پکڑ نہیں ہوگی جاو تم سب آزاد ہو..گی جاو تم سب آزاد ہو..

یہ اسوقت کا واقعہ ہے جب آپﷺ کو اپنے دشمنوں یعنی کفار مکہ پر کامل اختیار و اقتدار حاصل تھا، جب صحن کعبہ میں اسلام، پیغمبر اسلامﷺ اور جاں نثارانِ اسلام کے دشمن گروہ در گروہ سرجھکائے کھڑے تھے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مکہ فتح ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے کفارِ قریش کے ساتھ جو سلوک اور رویہ اپنایا، پوری انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس موقع کی مرقع آرائی معروف سیرت نگارعلّامہ شبلی نعمانی کی زبانی سنیے ’’آپﷺ نے مجمع کی طرف دیکھا تو جبّارانِ قریش سامنے تھے۔ ان میں وہ حوصلہ مند بھی تھے جو اسلام کو مٹانے میں سب کے پیش رو تھے۔ وہ بھی جن کی تیغ و سنان نے پیکر قدسیﷺ کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں، وہ بھی جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ بھی تھے،جو وعظ کے وقت آنحضرت ﷺ کی ایڑیوں کو لہولہان کردیا کرتے تھے۔ وہ بھی تھے جن کی تشنہ لبی خون نبوت کے سوا کسی چیز سے بجھ نہیں سکتی تھی،وہ بھی تھے جن کے حملوں کا سیلاب مدینے کی دیواروں سے آ آ کر ٹکراتا تھا، وہ بھی تھے جو مسلمانوں کو جلتی ہوئی آگ پر لٹا کر ان کے سینوں پر آتشیں مہریں لگایا کرتے تھے۔ رسول اکرمﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا: تمہیں کچھ معلوم ہے، میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ وہ اگرچہ ظالم تھے، شقی تھے، بے رحم تھے، لیکن مزاج شناس تھے، پکار اٹھے کہ تو شریف بھائی ہے اور شریف برادر زادہ ہے، ارشاد ہوا! تم پر کچھ الزام نہیں۔ جاو ،تم سب آزاد ہو‘‘۔

ساری دنیا نے دیکھا اور تاریخ کے سنہرے اوراق میں یہ بات لکھی ہے کہ پیغمبر رحمت، محسن انسانیت ﷺ نے ان دشمنوں کے ساتھ عین اس وقت کہ جب وہ مفتوح تھے، قیدی تھے، غلام تھے،زیردست تھے، ان میں مقابلے کی تاب نہ تھی، بے بس اور بے کس تھے، نیز جب یہ صدا بلند ہوئی: آج تو جنگ و جدال، اور قتال و انتقام کا دن ہے، آج تو خوںریزی اور بدلہ لینے کا دن ہے، اس موقع پر محسن انسانیت ﷺ کی سیرت طیبہ میں عفو و در گزر اور رواداری کا وہ شان دار نمونہ نظر آتا ہے، جو دیگر علم برداران مذاہب اور فاتحین عالم میں، فاتح مکہﷺ کو ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن پاک میں فرمایا گیا.{ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ } [الأنبياء: 107]

ہم نے آپ کو سارے جہانوں کےلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے…

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ :ایک موقع پر اصحاب ِ رسول ﷺ نے عرض کیا کہ آپ ان کا فروں کے لیے بددعا کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایامیں لعنت کرنے والا بنا کر نہیںبھیجا گیا ہوں بلکہ رحمت و ہدایت بناکر بھیجا گیاہوں۔سیرت رسول ﷺ میں ایسے بہت سے انمول واقعات ہیں۔ اسلام آپ ﷺ کے اخلاق و عفو و درگزر سے پھیلا ہے ،تلوار کے زور سے نہیں پھیلا۔ آپ ﷺ کی نرم مزاجی اورعفو و درگزر کو قرآن کریم نے جابجا بیان کیا ہے اور اس وصف اور خوبی کو اللہ تعالیٰ نے رحمت قرار دیا ہے۔

ایک بوڑھی عورت کے واقعے کو کون نہیں جانتا جو ہر روز سرکار دو عالم ص پر ہر روز کوڑاکرکٹ پھینکا کرتی ایک دن وہ نظر نہیں آئی آپ ص نے اس سے متعلقین سے پوچھا تو خبر ملی ہے کہ وہ بیمار ہے, نبی کریم ص اس کی عیادت کےلئے تشریف لے جاتے ہیں وہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ جس پر مل کچھرا پھینکا کرتی تھی وہ شخصیت میری عیادت کےلئے آئے ہیں اسی وقت وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتی ہے.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہیلی بیوی اس امت کی ماں حضرت خدیجہ رض جو عرب کی مشہور ترین اور خوبصورت عورتوں میں سے ایک تھی, بڑی تاجر عورت تھی, وہ نبی کریم ص کے اخلاق سے متاثر ہوئیں اور ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا اسوقت ان کی عمر 40 سال کی تھی اور نبی ص 25 سال کے جوان تھے, اس کو اسوقت کے بادشاہوں کے شہزادوں کا پیغام ایا تھا اس عورت نے ان تمام پیغامات کو رد کرکے نبی کریم ص کی ذات گرامی سے محبت کی, وہ آپ ص کی امانت داری سے بھی متاثر تھیں, اور نبی کریم ص نے تجارت میں انکا ساتھ دیا…

یہ چند چیزیں تھیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی ایسے سینکڑوں واقعات سیرت کی کتابوں میں ہیں ہمیں اسکو پڑھ کر اپنی عملی زندگی میں لانے کی ضرورت ہے, تاکہ ہمارے اخلاق سے متاثر ہوکر لوگ اسلام کی طرف راغب ہوجائیں اور انکے دلوں میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہو جائیں.

ازقلم: محمد حارث ابراہیم اکرمی ندوی

حالیہ مقیم وجے واڑہ, انڈیا