ڈاکٹربی بی خاشعہ
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی رحمتِ عالمیت صرف مردوں تک محدود نہ تھی، بلکہ آپ ﷺ نے عورتوں کے حقوق، عزت، مقام اور مقامِ انسانیت کو بلند کرنے میں غیرمعمولی کردار ادا فرمایا۔اسلام سے پہلے عرب معاشرت میں عورتوں کی حالت نہایت خفت آمیز تھی۔ انہیں حقِ تعلیم، وراثت، آزادیِ انتخاب، عزت اور خودمختاری سے محروم رکھا جاتا تھا۔ مگر حضورِ اکرم ﷺ نے آئندہ نسلوں کے لیے ایسی روشنی قائم کی جو صدیوں تک رہنمائی کرتی رہے گی۔
حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا:(تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے سب سے بہتر ہوں)۔ حضرت فاطمہ الزہراؓ کی شانِ عظمت کو بلند فرمایا، آپ ؐ نے انہیں نہایت محبت، عزت اور مقام دیا۔حضرت خدیجہؓ رضی اللہ عنہا، جو آپ ؐکی شریکِ حیات تھیں، نہ صرف پہلی مؤمنہ تھیں بلکہ آپ ﷺ کے سب سے بڑے مددگار بھی تھیں۔ حضور ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کے مقام و منزلت کی بار بار ستائش فرمائی اور ان کی خدمات کو بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھا۔خواتین کو وراثت میں حصہ دیا، ان کی تعلیم کو اہمیت دی، ان کی عزت و حقوق کی حفاظت کی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔حضرت عائشہ صدیقہؓ، جو علم کی خزانہ تھیں، ہزاروں احادیث کی روایت کرنے والی، خواتین کے علمی مقام کی روشن مثال بنیں۔ حضرت ام سلمہؓ اور دیگر صحابیاتؓ نے اسلامی معاشرت میں علمی، عملی اور اخلاقی کردار ادا کیا اور حضور ﷺ کے فرمانوں کی روشنی میں معاشرت کو سنوارا۔
اسی طرح آپ ؐکی زندگی کی ہر صفت، ہر عمل عورتوں کے لیے عملی درس ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ عورتیں مردوں کی مانند انسان ہیں، ان کا دین، اخلاق، علم، کردار اور خدمتِ انسانیت میں برابر کا حصہ ہے۔
مسلمان خواتین نے تاریخ کے ہر دور میں اپنی علمی، فنی اور سماجی خدمات سے امتِ مسلمہ کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ابتدائی اسلامی دور میں صحابیاتِ کرامؓ نے مختلف علوم میں مہارت حاصل کی اور اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ طب، حساب، ادب اور دیگر عملی علوم میں نہایت ماہر تھیں۔ صحابیاتؓ نہ صرف میدانِ جنگ میں زخمیوں کی تیمارداری کرتی تھیں بلکہ اپنے کلامِ پاک سے معاشرتی شعور کو بھی منور کرتی تھیں۔حضرت ام المومنین سیدہ زینب بنت جحشؓ رحمۃ اللہ علیہا علمِ طب میں بے پناہ مہارت رکھتی تھیں۔ آپ چمڑے کی صنعت میں بھی ماہر تھیں اور جو بھی معاوضہ حاصل کرتی تھیں اسے یتیموں، بیواؤں اور غریبوں میں تقسیم کر دیتی تھیں۔ یہ ہنر مندی اور سخاوت کی عملی تصویر ہے جو ہمیں خدمتِ انسانیت کی اعلیٰ مثال سے روشناس کرواتی ہے۔عصرِ جدید میں ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم میں بھی مسلم خواتین نے اپنی ممتاز خدمات سے کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔دنیا کی پہلی یونیورسٹی جامعۃ القرویین کی بنیاد حضرت فاطمہ الفہری رحمۃ اللہ علیہا نے رکھی، جو آج بھی علمی تحقیق اور تعلیم کا معتبر مرکز سمجھی جاتی ہے۔علمِ فلکیات کی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھنے والی خاتون مریم الاسترلابی نے نہ صرف کئی اہم کتب کے تراجم کیے بلکہ خود علمی تصنیف بھی کی، اور علمِ فلکیات کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی خدمات آج بھی علم و تحقیق کے میدان میں مشعل راہ ہیں۔
آج بھی مسلم خواتین ہر شعبے میں آگے بڑھ رہی ہیں، چاہے وہ طبی میدان ہو، سائنس، انجینئرنگ، تدریس یا تحقیق۔ ہر میدان میں محنت، علم اور خدمت کی نئی مثالیں قائم کر رہی ہیں۔مسلمان خواتین نے نہ صرف اپنی ذاتی ترقی کی ہے بلکہ معاشرتی بیداری، اخلاقی تربیت اور علمی ترقی کے لیے بھی ہر دور میں جدوجہد کی ہے۔یہ عظیم خدمات امتِ مسلمہ کے روشن اور تابناک مستقبل کی ضمانت ہیں، اور ہمیں بھی دعوت دیتی ہیں کہ ہم علم و تحقیق کی راہوں پر قدم بڑھائیں اور خدمتِ انسانیت کا عملی شعار بنائیں۔