نتیش رانے کی بکواس اور بی جے پی

   

مہاراشٹرا کے وزیر نتیش رانے نے ایک بار پھر اپنی بیمار سوچ اور منفی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بکواس کی ہے ۔ انہوں نے ہندوستان کی ایک سب سے زیادہ خواندگی والی ریاست کو منی پاکستان قرار دیا ہے ۔ انہوں نے کانگریس قائدین راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کو ووٹ دینے والوں کو دہشت گرد تک قرار دیتے ہوئے ملک کے ذمہ دار رائے دہندوں کی ہتک کی اور ان کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سابق مرکزی وزیر نارائن رانے کے فرزند نتیش رانے اکثر و بیشتر اشتعال انگیز بیانات کیلئے جانے جاتے ہیں اور انہیںصرف زہر اگلنے میں مہارت حاصل ہے ۔ ان کی ذاتی قابلیت پر کئی سوال اٹھتے ہیں تاہم وہ صرف اسی لئے سرخیوں میںرہتے ہیں کہ وہ وقفہ وقفہ سے نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال انگیز بیانات دیتے رہتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان پر لگام کسنے کی کسی نے بھی کوشش نہیں کی ہے ۔ بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انہیں مہاراشٹرا میں جو وزارت دی گئی ہے ان کی اسی طرح کی نفرت انگیز اور زہر آلود تقاریر کیلئے بطور انعام دی گئی ہے ۔ کبھی وہ ملک کے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں تو کبھی سیاسی مخالفین کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ نتیش رانے انتہائی منفی سوچ کے ساتھ کام کرنے والے سیاستدان ہیں اور انہوں نے کیرالا جیسی خواندگی میں سر فہرست اور سکیولر ریاست کو منی پاکستان قرار دیتے ہوئے ایک طرح سے ملک کی سالمیت پر سوال پیدا کیا ہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے کیرالا کے قابل اورتعلیم یافتہ رائے دہندوں کی ہتک اور توہین کی ہے اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیںکی جا رہی ہے اور نہ ہی ان سے کسی طرح کی بازپرس کی جا رہی ہے ۔ نتیش رانے نے پرینکا گاندھی اور راہول گاندھی کو ووٹ دینے والے رائے دہندوں کو دہشت گرد تک قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا ہے ۔ اس طرح کے بیانات سے ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ پیدا ہوتا ہے اور سماج میں جو نفرت پہلے ہی سے پھیلا دی گئی ہے وہ اور بھی شدت اختیار کر جائے گی ۔ ملک میں نراج اور بدامنی کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں مہاراشٹرا کابینہ سے علیحدہ کیا جائے ۔
نتیش رانے کے خلاف رائے دہندوں کو دہشت گرد قرار دینے پر مقدمہ درج کیا جانا چاہئے کیونکہ جو سیاستدان ملک میں جس کسی عہدہ اور منصب تک پہونچ پاتے ہیں وہ محض رائے دہندوں کے ووٹ سے ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔ نتیش رانے بھی اگر مہاراشٹرا کے وزیر بنائے گئے ہیں تو اسمبلی کی رکنیت کیلئے وہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں۔ انہیں جو سیاست ورثہ میں ملی ہے ان کے والد بھی چیف منسٹر یا مرکزی وزیر عوام کے ووٹ سے ہی بن پائے تھے ۔ انہیںیہ فراموش نہیںکرنا چاہئے کہ یہ ملک کے عوام اور رائے دہندوں کی ہی طاقت ہے جس نے ان کی پارٹی کو اقتدار بخشا ہے یا کسی اور پارٹی کو اپوزیشن میں جگہ دی ہے ۔ ملک کے عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ کبھی بھی اور کسی کا بھی تختہ پلٹ کرسکتے ہیں۔ سیاسی اختلاف کے نام پر زہر افشانی کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ سیاست میں کسی کی مخالفت کرنا ان کا حق ہوسکتا ہے لیکن کسی لیڈر کو ووٹ دینے والے کو دہشت گرد قرار دینے کا انہیںکوئی حق نہیںہے ۔ چند سو یا چند ہزار نہیں بلکہ لاکھوں رائے دہندوں نے پرینکا گاندھی اور راہول گاندھی کو ووٹ دیا ہے ۔ کیا یہ لاکھوں افراد دہشت گرد ہوسکتے ہیں ؟ ۔ کسی بھی لیڈر کو اور خاص طور پر نتیش رانے جیسے منفی سوچ و ذہنیت رکھنے والے قائدین کو اپنی زبان پر لگام لگانے کی ضرورت ہے ۔ ان کے بیانات پر جواب طلب کیا جانا بھی ضروری ہے ۔ اسی طرح کی بکواس کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
بی جے پی کی اعلی قیادت اور مہاراشٹرا کے چیف منسٹر دیویندر فڑنویس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نتیش رانے سے جواب طلب کریں۔ ان سے وضاحت طلب کی جائے اور انہیںہدایت دی جائے کہ وہ کیرالا کے قابل اور تعلیم یافتہ رائے دہندوں سے معذرت خواہی کریں۔ عوام کا یہ حق ہے کہ وہ جس کو چاہیں ووٹ دیں۔ جس کو چاہیں ایوان کیلئے منتخب کریں۔ کسی مخصوص امیدوار کے حق میں ووٹ دینے پر کسی کو دہشت گرد قرار دینا قابل گرفت ہے اور ان کے خلاف عدالتی دروازہ بھی کھٹکھٹایا جانا چاہئے تاکہ دوسروں کو اس طرح کی بکواس کرنے کی جراء ت نہ ہونے پائے اور سماج میں ہم آہنگی برقرار رہ سکے ۔