نتیش کی دوری ‘ 21 نشستوں کا نقصان

   

بہار میں چیف منسٹر نتیش کمار کی جانب سے بی جے پی سے اتحاد کو ختم کرنے اور دوبارہ مہا گٹھ بندھن کا حصہ بننے کا فیصلہ ملک کی سیاست کو ایک نیا رخ فراہم کرسکتا ہے ۔ کچھ قیاس یہ لگائے جا رہے ہیں کہ نتیش کمار نے سب سے پہلے فیصلہ کرتے ہوئے بی جے پی سے دوری اختیار کی اور ان کا یہ فیصلہ در اصل دوسری علاقائی جماعتوں کیلئے بھی مثال ثابت ہوسکتا ہے اور وہ بھی بی جے پی سے دوریاں اختیار کرنے پر غور کرسکتے ہیں۔ نتیش کمار کو کچھ گوشوں کی جانب سے آئندہ عام انتخابات میں وزارت عظمی امیدوار کے طور پر بھی پیش کیا جا رہا ہے جبکہ خود نتیش کمار نے ایسی کسی خواہش سے انکار کیا ہے ۔ در اصل یہ کوشش انتخابی مقابلہ کو محدود کرنے کی کوشش کہی جاسکتی ہے ۔ تاہم یہ زیادہ امید کی جا رہی ہے کہ کئی علاقائی جماعتیں بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی کیلئے سرگرم ہوسکتی ہیں۔ حالانکہ فی الحال بی جے پی کو کسی بھی جماعت کے دوری اختیار کرنے سے کوئی فرق نہیںپڑیگاا ور پارلیمنٹ میں اس کی عددی طاقت متاثر نہیں ہونے والی ہے لیکن یہ ضرور قیاس کیا جا رہا ہے کہ طویل وقت میں بی جے پی کے انتخابی امکانات ضرو ر متاثر ہوسکتے ہیں۔ فی الحال بی جے پی کو پارلیمنٹ میں تین سو سے زیادہ ارکان کی تائید حاصل ہے ۔ تاہم ایک تازہ ترین سروے میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ نتیش کمار کی بی جے پی سے دوری کے نتیجہ میں این ڈی اے اتحاد کو جملہ 21 نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے ۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس نقصان کے باوجود مرکز میں این ڈی اے اتحاد کو اکثریت حاصل ہوسکتی ہے اور اس کی حکومت قائم ہوسکتی ہے لیکن یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ بی جے پی اپنے بل پر تنہا حکومت سازی کرنے کے موقف میں نہیں رہے گی جس طرح سے وہ اب ہے ۔ اسے حکومت سازی کیلئے علاقائی جماعتوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا ۔ یہ موجودہ صورتحال ہے ۔ تاہم کچھ گوشوں کا تاثر ہے کہ اگر کچھ اور علاقائی جماعتیں بی جے پی سے دوری اختیار کرلیتی ہیں اور تمام جماعتیں بی جے پی کے خلاف جارحانہ مہم چلانے میں کامیاب ہوتی ہیں تو بی جے پی کوا قتدار سے روکا جاسکتا ہے ۔
موڈ آف دی نیشن اور سی ووٹر کے سروے میں کہا گیا ہے کہ اگر ملک میںفوری طور پر عام انتخابات ہوتے ہیں تو این ڈی اے اتحاد کو نتیش کمار کی دوری کے نتیجہ میں جملہ 21 نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے ۔ یہ بی جے پی کیلئے کوئی خاص فرق پیدا کرنے والی صورتحال نہیںہوگی لیکن کہا جا رہا ہے کہ جو علاقائی جماعتیں اب بھی بی جے پی سے دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں وہ بھی دوری اختیار کرتی ہیں تو اس کا لازمی طور پر بی جے پی کے انتخابی امکانات پر اثر ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی کو اگرمرکز میں حکومت بنانی ہے تو پھر اسے دوسری علاقائی جماعتوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے پر مجبور ہونا پڑسکتا ہے اور اس وقت علاقائی جماعتیں پس و پیش کا شکار ہوسکتی ہیں کیونکہ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے جو بیان دیا ہے وہ علاقائی جماعتوں کیلئے پریشان کن کہا جا رہا ہے ۔ نڈا کا کہنا تھا کہ تمام علاقائی جماعتیں ختم ہوجائیں گی اور صرف بی جے پی برقرار رہے گی ۔ یہی وہ بیان ہے جس کو بنیاد بناتے ہوئے نتیش کمار کی جے ڈی یو نے بی جے پی سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اسی بیان کو اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں دوسری علاقائی جماعتوں میں بھی یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ آج نہیں تو کل ان کی باری بھی آئے گی ۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام علاقائی جماعتیں بی جے پی کے خفیہ عزائم کو قبل از وقت محسوس کریں۔ خود ان کے اپنے وجود کو برقرار رکھنے ایسا کرنا ضروری ہے ۔
سروے کے مطابق حالانکہ نریندر مودی کو اب بھی دوسرے قائدین پر سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے لیکن علاقائی جماعتوں اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے مابین اگر کوئی جامع حکمت عملی بنتی ہے اور بی جے پی کو یکا و تنہا کرتے ہوئے اس کے حلیفوں کی تعداد کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے تو اس کے اثرات یقینی طور پر انتخابی نتائج پر مرتب ہونگے ۔ مودی کی مقبولیت بھی امیدواروں کو کامیابی دلانے میںاس حد تک کامیاب نہیںہو پائے گی جتنی بی جے پی کو امید ہے ۔ ایسے میں تمام علاقائی اور اپوزیشن جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایک جامع اور منظم منصوبہ تیار کرنے اور بی جے پی سے مقابلہ کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے ۔