نجر کی ہلاکت پر اب بھی کینیڈین اہلکار اپنے موقف پر اٹل

   

ہندوستانی سفارت کاروں کی نگرانی کے بعد موصول انٹلی جنس رپورٹ جھوٹی نہیں ہوسکتی
اوٹاوا : کینیڈا کے ایک اہلکار نے جمعرات کو اسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ایک سکھ کینیڈین کے قتل میں ہندوستان کے ملوث ہونے کا الزام کینیڈا میں ہندوستانی سفارت کاروں کی نگرانی کی بنیاد پر مبنی ہے، جس میں ایک اہم اتحادی کی طرف سے فراہم کردہ انٹیلی جنس بھی شامل ہے۔ اہلکار نے کہا کہ ان کمیونیکیشنز میں ہندوستانی عہدہ دار اور کینیڈا میں ہندوستانی سفارت کار شامل تھے اور یہ کہ کچھ انٹیلی جنس فائیو آئیز نامی انٹیلی جنس شیئرنگ الائنس کے ایک رکن نے فراہم کی تھی، جس میں کینیڈا کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ اہلکار نے یہ نہیں بتایا کہ کس اتحادی نے انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں یا اس کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ ان کمیونیکیشنز میں کیا تھا یا انہیں کیسے حاصل کیا گیا۔ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی تھی کیونکہ وہ اس معاملہ پر عوامی سطح پر بات کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے سب سے پہلے اس انٹیلی جنس کی اطلاع دی تھی۔ یہ انکشاف ایسے میں سامنے آیا ہے جب ہندوستان نے کینیڈین شہریوں کو ویزے کا اجراء￿ روک دیاہے اور کینیڈا سے کہا کہ وہ اپنے سفارتی عملے کو کم کرے۔ ٹروڈو کی جانب سے پیر کو پارلیمنٹ میں کینیڈا کی سرزمین پر ہونے والے قتل میں ہندوستان کے ملوث ہونے کے قابل بھروسہ الزامات کے بارے میں بتانے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات برسوں میں اپنی نچلی ترین سطح پر آ گئے ہیں۔ ہندوستان میں پیدا ہونے والیہردیپ سنگھ نجر ، ایک پلمبر تھے جو 2007 میں کینیڈا کے شہری بنے تھے۔جون میں وینکوور کے مضافاتی علاقہ سرے میں گورد واریے باہر گولی مار کر ہلاک کیے جانے سیپہلے، وہ کئی برسوں سے ہندوستان کو مطلوب تھے۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پرسائیڈ لائنز پر بات کرتے ہوئے، ٹروڈو نے پیچیدہ سفارتی صورتحال کا اعتراف کیا۔ ہاؤس آف کامنز کے فلور پر ان الزامات کو شیئر کرنے کا فیصلہ آسانی ے نہیں کیا گیا تھا کہ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی سوال نہیں ہے کہ ہندوستان بڑھتی ہوئی اہمیت کا حامل ملک ہے اور ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ ہمیں کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہم اشتعال انگیزی یا مسائل پیدا کرنے کے خواہاں نہیں ہیں لیکن ہم قانون کی حکمرانی کی اہمیت کے بارے میں اور کینیڈینز کے تحفظ کی اہمیت کے بارے میں واضح ہیں۔ ان دھماکہ خیز الزامات نے بین الاقوامی سطح پر ایک جیسے کو تیسا جیسی محاذ آرائی کا آغاز کیا ہے۔دونوں ملکوں نے ایک ایک سفارت کار کو ملک بدر کیا۔ ہندوستان نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیاہے۔ کینیڈا نے ابھی تک ٹروڈو کے الزامات کی تقویت کے لیے عوامی ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں، اوراقوام متحدہ کے لیے کینیڈا کے سفیر باب رے نے کہا ہیکہ شاید جلد ایسا نہیں ہو گا۔ کینیڈا کے سفیرنے جمعرات کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ حقائق کے سامنے آنے کے حوالے سے یہ بہت ابتدائی دن ہیں انہیں انصاف کے حصول کے دوران سامنے آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی ہے جسے ہم کینیڈا میں قانون کی حکمرانی کہتے ہیں۔ ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے سیکیوریٹی سے متعلق مسائل کو ویزا کی معطلی کا ذمہ دار ٹھہرایا، جس میں تیسرے ممالک میں جاری کیے جانے والے ویزے بھی شامل ہیں۔ باغچی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ کینیڈا میں ہمارے ہائی کمیشن اور قونصل خانوں کو درپیش سیکورٹی خطرات نے ان کے معمول کے کام میں خلل ڈالا ہے۔ انہوں نے مبینہ دھمکیوں کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ یہ اعلان پورے کینیڈا میں تیزی سے پھیل گیا، خاص طور پر ان لوگوں کے درمیان جو ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان، باغچی نے بھی کینیڈا سے ہندوستان میں اپنے سفارتی عملے کو کم کرنے کا مطالبہ یہ کہتے ہوئے کیا کہ ان کی تعداد کینیڈا میں ہندوستانی سفارت کاروں سے زیادہ ہے۔