نریندر مودی کی تیسری میعاد

   

وقت نے رکھا ہے میرے آگے ایک ایسا سوال
ہاں ہی کہنا تھا مناسب دوسرا رستہ نہ تھا
نریندر مودی مسلسل تیسری میعاد کیلئے ملک کے وزیر اعظم بننے والے ہیں۔ دو میعادوں تک انہوں نے من مانی انداز میں حکومت چلائی ہے ۔ وہ عوام کو جوابدہ ہونے کے تصور سے خود کو بری تصور کر رہے تھے ۔ ان کے آگے کوئی سوال کرنے کی جراء ت نہیں کر پا رہا تھا ۔ خود بی جے پی میں کئی قائدین ایسے رہے ہیں جو مودی کے طرز عمل سے مطمئن نہیں تھے لیکن انہوں نے مودی کی جو تشہیر ہوتی رہی تھی اس سے خوفزدہ تھے اور وہ سوال کرنے سے گریز کرتے رہے تھے ۔ اس کے علاوہ کچھ قائدین ایسے بھی تھے جنہیںصرف اپنے اقتدار سے مطلب تھا اور وہ مودی کی سرپرستی میں اپنے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور انہوں نے بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا ۔ وہ عوامی مسائل کو فراموش کر بیٹھے تھے ۔ اس کے علاوہ جو جماعتیں اپوزیشن میں تھیں ان میں کانگریس کے سواء دوسری جماعتیں کسی نہ کسی طرح سے مودی کی جانب سے ایجنسیوں کے بیجا استعمال کی وجہ سے ہراسانی کا شکار تھیں۔ کانگریس کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا ۔ مقدمات سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن کانگریس نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے تھے ۔ علاقائی جماعتیں اپنے محدود حلقہ اثر کی وجہ سے اور مودی اور شاہ کی جوڑی کی جانب سے اقتدار کے بیجا استعمال سے خوفزدہ ہوتی رہی تھیں۔ نریندر مودی نے جس طرح سے پہلی میعاد سے قبل عوام سے نت نئے وعدے کئے تھے اور پھر انہیں فراموش کردیا تھا اس کا تسلسل دوسری میعاد کیلئے بھی برقرار رہا تھا ۔ عوام کو یہ امید رہی تھی کہ جو وعدے پہلی میعاد میں پورے نہیں ہوئے ہیں وہ دوسری میعاد میں ضرور پورے ہونگے لیکن ایسا ہوا نہیں ۔ تیسری میعاد سے قبل عوامی ناراضگی کا خود مودی اور شاہ کو اندازہ ہوچلا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ نریندر مودی نے خود ملک میں انتخابی مہم کو پراگندہ کرنے کی ذمہ داری اٹھائی اور انہوں نے ایسی ایسی تقاریر کیں جو کسی مقامی لیڈر کو بھی نہیںکرنی چاہئے تھیں۔ انتخابی مہم کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ نریندرمودی سارے ملک کے عوام کے وزیر اعظم نہیں ہیں بلکہ وہ محض ایک مخصوص فرقہ اور طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں یا محض ایک ہی طبقہ کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔
مودی نے دوسری میعاد کی تکمیل کے وقت تیسری میعاد کیلئے جو تقاریر کیں انہوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور انہیں رسواء کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ یہ طئے تھا کہ عوام بی جے پی کو اقتدار سونپنے والے نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے ہندو ۔ مسلم کی سیاست کرنے کو ترجیح دی اور یہ امید کی گئی تھی کہ فرقہ پرستی کے ایجنڈہ کی بدولت وہ کامیاب ہوجائیں گے ۔ تاہم ایسا ہوا نہیں۔ بی جے پی بلکہ مودی اپنے بل پر اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے اور اب تیسری میعاد کیلئے انہیں چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑ گئی ہے ۔ وہ ان دونوں قائدین کے بغیر کچھ بھی کرنے کے موقف میں نہیںرہ گئے ہیں۔ اسی وجہ سے بہر صورت ان دونوں کی تائید حاصل کی گئی ہے اور اب تیسری میعاد کیلئے مودی کو وزارت عظمی پر فائز ہونے کا موقع مل رہا ہے ۔ کم از کم اب جبکہ ہندوستان میں ایک بار پھر مخلوط سیاست کا دور شروع ہوا ہے مودی کو اپنے طرز عمل کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں جائزہ لینا چاہئے کہ انہوں نے کس طرح سے ملک کے فرقہ وارانہ یکجہتی کے ماحول کو متاثر کیا ہے ۔ گذشتہ دس برس میں ہندوستان کی کیا حالت کردی گئی ہے ۔ کس کس گوشے سے فرقہ پرستی کی آگ بھڑکائی جا رہی تھی اور بی جے پی اور اس کے قائدین بالواسطہ طور پر اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں۔ کس طرح سے ملک کی اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور رسواء کرنے کے منصوبے رچے گئے تھے اور ان پر کس طرح سے عمل آوری کی گئی ۔
ملک کی معیشت کو محض مٹھی بھر کارپوریٹس کے حوالے کردیا گیا تھا ۔عوامی شعبہ کی املاک کو اپنے حاشیہ برداروں کو کوڑیوں کے مول فروخت کردیا گیا تھا ۔ محض شخصی پسند و ناپسند کی بناء پر کام کیا گیا تھا ۔ نوجوانوں کو روزگار سے محروم کردیا گیا تھا ۔ مہنگائی کو قبول کرنے کیلئے تک حکومت تیار نہیں تھی ۔ اب کم از کم تیسری میعاد میں جبکہ ان کی عوامی تائید گھٹ چکی ہے تو نریندر مودی کو چاہئے کہ وہ اپنا محاسبہ کریں۔ اپنی پالیسیوں اور نظریہ پر از سر نوغور کریں۔ عوام کے فیصلے کی طاقت کو سمجھیں اور اس کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں تیار کریں۔ انہیں یہ یقین کرلینا چاہئے کہ ہندوستان میں فرقہ پرستی ہر موقع پر کارآمد ثابت نہیں ہوسکتی ۔
راہول گاندھی قائد اپوزیشن
کانگریس لیڈر راہول گاندھی لوک سبھا میں امکانی قائد اپوزیشن ہونگے ۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی نے اس سلسلہ میں ایک قرار داد منظور کرتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ راہول گاندھی کو یہ ذمہ داری سونپی جانی چاہئے ۔ راہول گاندھی گذشتہ کچھ عرصہ میں ایک مقبول اور پسندیدہ عوامی لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں اور انہوں نے اپنی مسلسل جدوجہد کے ذریعہ کانگریس کو لوک سبھا میں خاطر خواہ نشستیں دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے اور ان ہی کی جدوجہد بی جے پی کو اقتدار کے جادوئی ہندسہ تک پہونچنے سے روکنے میں کامیاب رہی ہے ۔ راہول گاندھی ملک کی سیاست میں بے تکان جدوجہد کی علامت بن کر ابھرے ہیں اور لوگ انہیں پسند کر رہے ہیں۔ عوامی مسائل پر ان کی گرفت اچھی ہے ۔ وہ حکومت کو گھیرنے کی ہنر بھی جانتے ہیں۔ ایسے میں انہیںقائد اپوزیشن کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے اور یہ امید بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ اس ذمہ داری سے پوری طرح انصاف بھی کریں گے ۔ اگر وہ قائداپوزیشن کی ذمہ داری سنبھال لیتے ہیں تو یہ ملک کے عوام کیلئے ایک اچھی علامت ہوگی اور عوامی مسائل پر حکومت سے جواب طلب کرنے میں وہ کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے۔