نعت کہنا سنتِ الٰہیہ اور نعت سننا سنتِ مصطفی ﷺ

   

ڈاکٹر بی بی خاشعہ

بلاشبہ نعت نگاری اور نعت خوانی رب ذوالجلال کا ایک ایسا بے مثال اور لازوال عطیہ ہے جو صرف ان خوش نصیب سخن شناسوں اور اہلِ دل کو نصیب ہوتا ہے جن کے سینے عشقِ رسول ﷺ کی حرارت سے منور ہوتے ہیں۔ نعت محض ایک صنفِ سخن نہیں بلکہ ایمانِ کامل کی علامت اور محبتِ مصطفی ﷺ کا حسین اظہار ہے۔ نعت کہنا دراصل ذکرِ رسولِ مقبول ﷺ کو زبان و قلم سے زندہ رکھنے کی کوشش ہے، اور یہ سعادت ہر کس و ناکس کے نصیب میں نہیں ہوتی۔یہ وصف صرف اُن خوش بختوں کا مقدر بنتا ہے جو اپنی حیاتِ مستعار کو عشقِ مصطفی ﷺ کا سرمایۂ افتخار سمجھتے ہیں۔ نعت گوئی میں جذبات کی لطافت، عقیدت کی گرمی، اور روحانیت کی پاکیزگی یکجا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت کہنا سنتِ الٰہیہ اور نعت سننا سنتِ مصطفی ﷺ قرار پاتا ہے، کیونکہ خالقِ کائنات نے خود اپنے محبوب ﷺ کی نعت فرما کر اس عمل کو آسمانی شرف بخشا۔
اگر نعتیہ شاعری کے تاریخی سفر پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ نعت کا آغاز خود عہدِ ولادتِ مصطفی ﷺ سے ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہؓ نے ولادت کے وقت جو اشعار کہے، انہیں نعتِ نبوی ﷺ کا پہلا نمونہ کہا جاتا ہے، جن میں انہوں نے اپنے لختِ جگر کو خدا کی پناہ میں دیتے ہوئے اس کی حفاظت و برکت کی دعا کی۔ اسی طرح آپ ﷺ کی رضاعی بہن حضرت شیما بنت الحارثؓ سے منسوب لوری نعتیہ شاعری کا دوسرا روشن باب ہے، جس میں انہوں نے اپنے ننے بھائی محمد ﷺ کے لئے عزت، بلندی اور غلبے کی دعا فرمائی۔
یوں نعت گوئی کی ابتدا حضور نبی اکرم ﷺ کے عہدِ طفولیت سے ہی ہوچکی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ نعت محض ادبی صنف نہیں بلکہ عقیدت و محبت کا وہ نور ہے جو دلوں کو منور کرتا ہے۔
قرآنِ مجید میں بھی نعت رسول ﷺ کا بیان متعدد مقامات پر موجود ہے۔ خالقِ کائنات نے فرمایا: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ’’ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا‘‘۔یہ آیتِ مبارکہ نعت رسول ﷺ کی سب سے اعلیٰ اور جامع تعبیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو کبھی يٰـسٓ، کبھی ”الْمُزَّمِّلُ“ کبھی ” الْمُدَّثِّرُ“ کہہ کر پکارا۔ کہیں ”وَالضُّحٰی“ کہہ کر آپ ﷺ کے روشن چہرۂ انور کی قسم کھائی، اور کہیں ” وَاللَّیْلِ“کہہ کر آپ ﷺ کی مشک بار زلفوں کی قسم کھا کر اپنی محبت کا اظہار فرمایا۔گویا نعت کا اولین خالق خود اللہ رب العزت ہے اور سب سے پہلی نعت گوئی ذاتِ باری تعالیٰ نے فرمائی۔ اس لحاظ سے نعت کہنا واقعی سنتِ الٰہیہ ہے۔ سب سے برتر اور کامل نعت درودِ پاک کی صورت میں ہم تک پہنچی، جس کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوا: إِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ، يٰا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام کہا کرو۔)درود شریف دراصل وہ آسمانی نعت ہے جو ایمان والوں کو سکھائی گئی تاکہ وہ ہمیشہ اپنے محبوب ﷺ کے ذکر میں مشغول رہیں۔
نعت خوانی کی محافل محض تقریبات نہیں ہوتیں، بلکہ یہ زمین پر سنتِ الٰہیہ کی تجدید اور محبتِ رسول ﷺ کی تجسیم ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان بن ثابتؓ سے فرمایا:’’جب تک تم اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کا دفاع شعر کے ذریعہ کرتے رہو گے، روح القدس (جبریل علیہ السلام) تمہاری تائید کرتے رہیں گے‘‘۔یہ حدیث مبارکہ نعت گوئی کی عظمت اور مقبولیت کی روشن دلیل ہے۔
نعت کے اشعار نہ صرف دلوں کو منور کرتے ہیں بلکہ انسان کو گناہوں سے توبہ، اطاعت رسول ﷺ، اور محبت الٰہی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ نعت دراصل روح کی غذا، دل کی راحت اور ایمان کی تازگی ہے۔
ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں وہ زبان، وہ ایمان، اور وہ جذبہ عطا ہوا جس کے ذریعے ہم نبی رحمت ﷺ کی مدح سرا بن سکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی زبانوں کو درود و سلام سے معطر رکھیں اور اپنے دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کے چراغ کو ہمیشہ روشن رکھیں، کیونکہ نعت کہنا بھی عبادت ہے اور نعت سننا بھی سعادت۔