نعرہ لگانے والوں پر غداری کا کیس

   

محبت کرنے والا تو ستمگر ہو نہیں سکتا
کسی کے واسطے وہ تیر و نشتر ہو نہیں سکتا
نعرہ لگانے والوں پر غداری کا کیس
ہندوستانی سیاسی تاریخ کے انتہائی متنازعہ فیصلوں میں سی اے اے کو نازک فیصلہ سمجھا جارہا ہے ۔ سارے ملک میں سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریالیاں منعقد ہورہی ہیں ۔ حکمراں پارٹی بی جے پی اور اس کے قائدین کو اپنی حکومت کے فیصلوں کے خلاف جاری احتجاج پر اعتراضات ہیں ۔ یہ قائدین چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کی حکومت نے جو کچھ فیصلے کئے ہیں عوام انہیں قبول کریں ۔ خاموشی کے ساتھ ان فیصلوں پر عمل کریں لیکن حکومت کے فیصلے جب ملک کے دستوری اور جمہوری بنیادوں کو کمزور کرتے ہیں تو عوام الناس آواز بلند کرنے کا حق رکھتی ہیں لیکن اس حق کو بھی چھین لینے کی کوششیں قابل مذمت سمجھی جائیں گی ۔ ریالیوں اور جلسوں میں بعض افراد کی موافق پاکستان نعرہ بازی نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کا رخ ملک دشمنی کے الزام کی طرف موڑ دیا گیا ۔ جو کوئی بھی مودی حکومت پر تبصرہ کرے گا وہ غدار کہلائے گا ۔ اس طرح کا تاثر دیتے ہوئے بعض قائدین نے اپنی نفرت کی چنگاریاں بھڑکانے کی کوشش کی ہے ۔ پاکستان کا نام لے کر نعرہ بازی کرنے والوں کے خلاف غداری کا مقدمہ لگایا جارہا ہے ۔ اس طرح گذشتہ روز بنگلور میں ایک مخالف سی اے اے جلسہ کے دوران اچانک 19 سالہ لڑکی نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تو منتظمین کے ہوش اڑ گئے اور فوری طور پر اس لڑکی کو نعرہ لگانے سے روک دیا گیا ۔ منتظمین کو ڈر تھا کہ کہیں ان پر بھی غداری کا الزام عائد کیا جائے گا ۔ پولیس نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والی لڑکی امولیا لیونا کو گرفتار کرلیا اور غداری کا مقدمہ تھوپ کر عدالتی تحویل میں لیا گیا ۔ اس سے پہلے بھی کئی طلباء اور دیگر شہریوں کے خلاف غداری کے مقدمے دائر کئے جاچکے ہیں ۔ ملک کی فضا کو نہایت ہی خوف ناک بناتے ہوئے حکمراں طاقتوں نے یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ یہ ملک صرف ان کے اشاروں پر چلے گا ۔ یہاں عوام کے مسائل ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ بادی النظر میں جو حکمراں دستور کے بنیادی اصولوں سے ہٹ کر کام کرتا ہے اسے دستور سے غداری کی پاداش میں ماخوذ کیا جانا ہوتا ہے ۔ مگر یہ بدبختی کی بات ہے کہ عوام کے خط اعتماد کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اپنے ہر غیر دستوری ، غیر جمہوری حرکتوں اور فیصلوں کو ہی اہم باور کرانے کی کوشش میں حکمراں طاقتیں عوام کے اندر ایک جوالا مکھی کو ہوا دے رہی ہیں ۔ سیاسی محاذ پر اپنے کارندوں کو چھوڑ کر فرقہ پرستی اور نفرت کی گولہ باری کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ دوسری طرف قانون و انصاف کی دھجیاں اڑا دی جارہی ہیں ۔ مودی حکومت کا یہ ہر دن بدلتا نفرت انگیز چہرہ جمہوری عوام کے لیے حیرت انگیز ہے ۔ حکمراں طاقتوں کے نمائندہ بن کر بعض تنظیموں نے نعرہ بازی کرنے والوں کے خلاف اپنے طور پر فیصلے سنانا شروع کردئیے ہیں ۔ بنگلور کی لڑکی امولیا لیونا کے سر پر 10 لاکھ روپئے کا انعام کا اعلان کرنے والی تنظیم سری رام سینا کا رکن بتایا گیا ہے ۔ اس نے امولیا کے قتل پر 10 لاکھ روپئے کا انعام کا اعلان کیا ہے ۔ شری رام سینا کا رکن سنجیو نے امولیا کو رہا نہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ ایک تنظیم کا رکن ہندوستان کی شہری کو برسر عام جان سے مارنے کا اعلان کررہا ہے اور اس کے قتل کے لیے 10 لاکھ روپئے کا انعام بھی دینے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ کھلے طور پر قانون و انصاف کو للکارنے والی حرکت ہے ۔ کیا پولیس کو اس طرح کے بیانات دینے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کرنی چاہئے کیا پولیس ایسے افراد کو کھلی چھوٹ دے کر ہندوستان کی پرامن فضا کو بگاڑنے کا انہیں لائسنس دینا چاہتی ہے ۔ ملک کے وہ قائدین جو قوم پرستی کے حوالے سے قتل و غارت گری کو ہوا دینا چاہتے ہیں تو یہ عوام کے لیے تشویش کی بات ہے ۔ یہ حکومت عوام کی فریاد سننے کے بجائے غدار قرار دینے کا آسان راستہ اختیار کررہی ہے ۔