نفرت انگیزتقاریر و بیانات بن گئے قومی سلامتی کا مسئلہ

   

جب میں نے ہردوار سے وائرل کئے گئے نفرت انگیز و خوفناک ویڈیو کلپس دیکھے تب یہی سوچا کہ انہیں بحث و مباحثہ کا کوئی پلیٹ فارم فراہم نہیں کیا جانا چاہئے۔ اگر آپ اس طرح کی بکواس اور اشتعال انگیز بیانات کو نشر کررہے ہیں یا نشر کرنے کا موقع دے رہے ہیں، چاہے وہ اس کی مذمت کیلئے کیوں نہ ہوں تو یہ ہمیشہ ایک فکر کی بات ہے، یعنی آپ اس طرح سے اس کے پیغام کو پھیلا رہے ہیں، اسے جلا بخش رہے ہیں لیکن میرا ایسا سوچنا غلط تھا، کیونکہ ہم آج ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں اسٹانڈ اَپ کامیڈین کو صرف کے ایک لطیفے کی پاداش میں جیل بھیجا جاتا ہے۔ میں بات کررہی ہوں منور فاروقی کی حالانکہ اس نے اپنے لطیفے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی تھی۔ اس کے متضاد ایسے افراد کو جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اُٹھانے، تشدد برپا کرنے اور ان کے قتل عام کی برسرعام خواہش کی یا لوگوں کو اُکسایا تب نہ ان کی گرفتاری عمل میں آئی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ برائے نام ایک دو ایف آئی آر درج کی گئیں۔ وہ بھی بڑی بے دلی کے ساتھ ، حد تو یہ ہے کہ دھرم سنسد میں بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ یہ عناصر مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض باتیں کرتے رہے اور ان لوگوں نے بناء کسی خلل کے یہ بکواس جاری رکھی۔ جو لوگ ہردوار کے دھرم سنسد میں کی گئی بکواس سے ناواقف ہیں، انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے، وہاں ناتھو رام گوڈسے کی زبردست تعریف و ستائش کی گئی ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے قتل عام کی کال دی گئی اور اس کیلئے میانمار کی مثال دی گئی جہاں فوج، پولیس اور بدھسٹوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ دھرم سنسد سے خطاب کرنے والوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ زعفرانی دستور پر بھی زور دیا۔ اس طرح کا مطالبہ کرنے والوں میں دہلی بی جے پی کے سابق ترجمان اور قانون داں اشونی اپادھیائے بھی شامل ہیں۔ اشونی کو دارالحکومت دہلی کے جنترمنتر پر نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ایک سادھو سوامی نے سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے بارے میں بھی عجیب و غریب باتیں کیں، اس نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے حوالے سے یہ بتایا کہ پارلیمنٹ میں جس وقت ڈاکٹر سنگھ نے یہ کہا تھا کہ ہندوستان کے وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہونا چاہئے۔ سوامی دھرم داس کا اس بیان کے حوالے سے یہ کہنا تھا کہ اگر میں اس وقت پارلیمنٹ میں موجود ہوتا اور میرے پاس ریوالور ہوتی ہے تو میں منموہن سنگھ کے جسم میں گولیاں اُتار دیتا اور وہی کرتا جو ناتھورام گوڈسے نے کیا تھا۔ دھرم داس نے مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی زبردست ستائش بھی کی ۔ اسی دھرم سنسد میں موجود پربھودانند گری نے ہندوستانی مسلمانوں کی نسلی تطہیر یا صفائی ابھیان شروع کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کا قتل عام یا صفایا کردینا چاہئے۔ پربھودانند گری کی تصاویر آپ بی جے پی کے اہم لیڈروں کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ اور چیف منسٹر اتراکھنڈ پشکر دھامی کے ساتھ لی ہوئی ان کی تصاویر آن لائن کافی وائرل ہوئی ہیں۔ کئی ایسی تصاویر ہیں جس میں چیف منسٹر اتراکھنڈ پشکر دھامی ان کے پیر چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دھرم سنسد تین دن تک جاری رہا اور باضابطہ اس کیلئے پولیس کی اجازت لی گئی۔ جبکہ ہندوستان بھر میں پولیس لا اینڈ آرڈر کے مسائل پیدا ہونے کے خدشے کے سبب طنز و مزاح اور اسٹانڈ اَپ کامیڈی کے پروگرام اور اس کے فنکاروں کی حوصلہ شکنی کررہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اتراکھنڈ پولیس نے بڑی بے دلی کے ساتھ اترپردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق سربراہ اور وسیم رضوی سے جیتندر نارائن تیاگی بننے والے اور دیگر نامعلوم افراد کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153 کے تحت فوجداری مقدمہ درج کیا ۔ یہ دفعہ مذہب ، ذات پات ، مقام پیدائش اور زبان کی بنیاد پر لوگوں کے مختلف گروپوں کے درمیان مخاصمت اور نفرت کو بڑھاوا دینے کی پاداش میں درج کی جاتی ہے۔ اب ہندوستان کا یہ حال ہوگیا ہے کہ ہر طرف نفرت کا دور دو رہ ہے۔ ہجومی تشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے ، عوام کو ہمیشہ ہجومی تشدد کا نشانہ بنے رہنے کا خوف بنا رہتا ہے ، اس سلسلے میں پنجاب کی مثال لیجئے ، جہاں مقدس کتابوں کے بے حرمتی کے الزامات پر دو افراد کی ہجوم کے ہاتھوں موت کا سبب بنی۔ یہ واقعات گولڈن ٹیمپل اور کپورتھلہ کے گردواروں میں پیش آئے۔ کپورتھلہ کے گردوارے میں جس شخص کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، وہ ایک ناقص غذا کا شکار شخص تھا اور امکانی طور پر چھوٹا موٹا چور بھی تھا جو غذا کی تلاش میں تھا، لیکن وہ شخص ایسا نہ بھی ہوتا تو بھی اس کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ حیرت تو پنجاب کے سیاست دانوں کی خاموشی پر ہے۔ ایک سیاست داں نے بھی اپنا منہ نہیں کھولاجو بدلتے ہندوستان کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ہاں حکمراں کانگریس نے اس کی مذمت کی اور ناموس مذہب کے خلاف سخت سزا کی بات کی۔ میں نے ہمیشہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقابل کی مخالفت کی ہے ، لیکن پنجاب میں ناموس مذہب کے بارے میں جو مباحث ہورہے ہیں ، اس کے بعد میں نے اپنا موقف بدل دیا ہے کیونکہ ہندوستان میں ایک مستحکم اقتدار ہے ، ایک جمہوریت ہے ، جس کا تصور کیا جاسکتا ہے اور ریاست کو جوابدہ بنایا گیا ہے لیکن حالات کسی اور جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اختلاف ِ رائے بھی کسی بھی معاشرے میں اہمیت رکھتی ہے، لیکن افسوس ہم اس اہمیت کو بھی کھوتے جارہے ہیں۔ اختلاف رائے خطرہ میں پڑ گئی ہے۔ یہ اچھی بات ہوئی کہ دھرم سنسد میں کی گئی بکواس کی سب سے پہلے ہندوستان کے بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمیرل ارون پرکاش اور جنرل وید ملک نے مذمت کی اور ان لوگوں نے یہ مذمت ہمارے ٹی وی پرائم ٹائم پر ہری دوار دھرم سنسد کے بارے میں پروگرام کے مشاہدہ کے بعد کیا جبکہ کئی ایسے ٹی وی چیانلس بھی ہیں جن کے میزبان اینکروں نے نفرت کو مزید گہری کرنے اور جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اب جو کوئی حکمراں طبقہ اور ان کے حامیوں کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتا، اسے قوم دشمن قرار دینے کا رجحان چل پڑا ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہندوستانی قوم کے نظریہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس ضمن میں فوج کے ایک سابق عہدیدار بریگیڈیئر سینڈی تھاپر نے مجھے بتایا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو پھر وہ وقت بھی آجائے گا جب نفرت کا زنگ ہماری فوج کو بھی متاثر کردے گا۔ یہ واحد ادارہ ہے جو اب تک اس طرح کی ناپسندیدہ چیزوں سے محفوظ ہے۔ بہرحال ہری دوار میں نفرت کے سوداگروں نے جس طرح نفرت کی باتیں کی ہیں، وہ قومی سلامتی کا مسئلہ بن گیا ہے، لیکن ہماری حکومت اور اس کے حامی اسے قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں سمجھتے۔ یہ سارے ملک کا مسئلہ ہے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں تو اسے دوبارہ سوچنا چاہئے۔