نفرت انگیز تقاریر ‘ سپریم کورٹ کا انتباہ

   


نفرت انگیز تقاریر اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو کھلے عام دھمکیاں ہندوستان میں عام بات ہوگئی تھیں۔ خاص طور پر ٹی وی چینلوں کے ذریعہ جو نفرت پھیلائی جا رہی تھی اس نے سارے ماحول کو پراگندہ کردیا تھا ۔ نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے والے مباحث مسلسل ٹی وی چینلس پر پیش کئے جا رہے تھے ۔ ان مباحث کے دوران انتہائی اشتعال انگیز ریمارکس کئے جا رہے تھے ۔ ٹی وی چینلس پر بیٹھنے والے زر خرید اینکرس بھی ان مباحث میں فریق کا رول ادا کرتے ہوئے اظہار خیال کی آزادی اور آزادی صحافت کی آڑ میں نفرت پھیلانے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ جہاں تک حکام کی بات ہے وہ تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے فرائض منصبی سے بالکل ہی بے پرواہ اور لا تعلق ہوگئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان چینلوں پر مباحث میں حصہ لینے والے افراد بھی انتہائی اشتعال انگیز بیانات دے رہے تھے ۔ مذہب کا بیجا استعمال کرتے ہوئے ملک میں یکجہتی اور سالمیت کو متاثر کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا تھا ۔ اپنے مذہب کو دوسروں پر سبقت دلانے کی کوشش کرتے ہوئے اس طرح کے ریمارکس کئے جا رہے تھے جس سے ملک میں قانون کی بالادستی پر سوال اٹھ رہے تھے اور یہ تاثر عام ہو رہا تھا کہ ملک میں قانو ن اور دستور کی حکمرانی نہیں ہے بلکہ مذہبی عقائد و واہمے اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ نفرت انگیز تقاریر اور ریمارکس اور مباحث مسلمانوں کے خلاف عام بات ہوگئے تھے ۔ متعلقہ حکام اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں اس معاملے میں انتہائی جانبدارانہ رول ادا کر رہی تھیں۔ مسلمانوں کے خلاف ریمارکس کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا تھا ۔ ریمارکس کرنے والوں کو سزائیں دلانے کی بجائے انہیں بچانے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔ اگر کسی معاملے میں بحالت مجبوری کوئی کارروائی کی بھی جا رہی تھی تو وہ محض دکھاوے کی کارروائی تھی ۔ بیشتر معاملات میں شکایت موصول نہ ہونے کا عذر پیش کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی جا رہی تھی ۔ جبکہ حکومت کے مخالفین کے خلاف کسی شکایت کے بغیر سنگین مقدمات درج کئے جا رہے تھے ۔
آج ملک کی عدالت عظمی ‘ سپریم کورٹ نے نفرت انگیز تقاریر کے مسئلہ اپنے اب تک کے سب سے شدید ریمارکس کئے ہیں اور سوال کیا کہ مذہب کے نام پر ہم کہاں آگئے ہیں ؟ ۔ یہ اکیسویں صدی ہے ۔ اس کے باوجود اس طرح کی صورتحال افسوسناک ہے ۔ جہاں تک حکومت کی بات ہے تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے ان میڈیا چینلس کو خود ہی ذمہ داری دے رکھی تھی کہ وہ نفرت انگیز مسائل پر مباحث کروائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان چینلس کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی کرنے کی بجائے ان کی سرپرستی کی گئی اور ان کے خلاف مقدمات درج نہیں کئے گئے ۔ عدالت نے آج متعلقہ حکام کو ہدایت دی کہ وہ اس طرح کے واقعات پر کسی شکایت کے بغیر از خود کارروائی کریں بصورت دیگر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے گی ۔ جو کوئی اس طرح کے معاملات میں کارروائی نہیں کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہندوستان جیسے ملک میں جو مذہبی اعتبار سے غیرجانبدار ہے اس طرح کے حالات انتہائی حیرت انگیز ہیں۔ عدالت نے یہ بھی واضح کردیا کہ ملک کے دستور کے مطابق ہندوستان سکیولر ملک ہے اور ملک کے شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کا احترام کریں۔ ملک کے اتحاد و یکجہتی کو دستور ہند کے پیش لفظ میں رہنماء اصول کے طور پر پیش کرنے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔
اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ذمہ دار اور فکرمند شہریوں کو اس انتہائی سنگین اور اہمیت کے حامل مسئلہ پر عدالت کا سہارا لینا پڑا کیونکہ متعلقہ حکام کی جانب سے انتہائی لاپرواہی برتی جا رہی تھی ۔ سنگین ترین خلاف ورزیوں اور ملک کے عوام کو دوسرے طبقات کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور ان کے قتل عام کیلئے اکسانے جیسے واقعات پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی ۔ اس طرح کی اشتعال انگیزی کرنے والوں کی حکام کی لاپرواہی کی وجہ سے حوصلہ افزائی ہو رہی تھی ۔ اب جبکہ عدالت نے انتہائی شدید ریمارکس کئے ہیں تو متعلقہ حکام کو اپنے فرائض منصبی کی تکمیل سے گریز نہیں کرنا چاہئے اور جو کوئی ملک کے امن کو درہم برہم کرنے اشتعال انگیزی کرے اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بہرصورت کی جائے ۔