نفرت کا بازار گرم کرنے کی سازشیں

   

جس عوام نے تم کو اقتدار بخشا ہے
ہوگئی نظر اُن سے آج کیوں پرائی سی
ملک کی سیاست میں نفرت کو ایک خاص مقام حاصل ہوگیا ہے ۔ عوام کو جو مسائل درپیش ہیں اور ملک جن حالات کا سامنا کر رہا ہے انہیں کہیں پس منظر میں ڈھکیلتے ہوئے صرف مذہبی منافرت پھیلانے کا کام کیا جا رہا ہے ۔ منظم اور منصوبہ بند انداز میں سماج میں دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ سماج کے اہم طبقات کے مابین نفرت کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ اشتعال انگیز تقاریر عام ہوگئی ہیں۔ اشتعال انگیز تقاریر کی روک تھام کیلئے ملک کی عدالتوں نے بھی ہدایات جاری کی ہیںا ور پولیس و دیگر نفاذ قانون کی ایجنسیوںکو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ از خود کارروائی کرتے ہوئے ایسا کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کریں ۔ سماج میں میں اس طرح کی بیان بازیوں کے ذریعہ اشتعال پھیلتا ہے اور بے چینی و اضطراب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ اس سب کے باوجود کچھ گوشے ہیں جو خاص طور پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے قائم کئے گئے ہیں اور وہ مسلسل ملک میں نفرت کا بازار گرم کرنے کی کوششیں شروع کرچکے ہیں۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کراری شکست اور ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے مجوزہ اسمبلی انتخابات میں پارٹی کے کمزور موقف اور امکانی شکست کو محسوس کرتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں اور یہ تیاریاں کوئی سیاسی حکمت عملی کے تحت نہیں ہیں بلکہ یہ سب کچھ مذہبی منافرت کو ہوا دینے اور کشیدگی و نفرت پھیلانے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے ۔ پہلے کچھ چنندہ اور بدنام زمانہ افراد کی جانب سے ہی اشتعال انگیز بیان بازیاں ہوا کرتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے اور ہر ذمہ دار فرد بھی اسی روش کو اختیار کرنے لگا ہے ۔ حکومت میں شامل افراد اور پارلیمنٹ کے ارکان تک جو زبان اور الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں وہ انتہائی شرمناک کہے جاسکتے ہیں۔ اپنی انتہائی گھٹیا سوچ اور ذہنیت کو آشکار کرتے ہوئے یہ لوگ زہر افشانی میں کوئی کسر باقی رکھنا نہیں چاہتے اور ملک کے گودی میڈیا کے تلوے چاٹنے والے اینکرس کی طرح یہ بھی اپنی چرب زبانی سے ہر طرح کی اشتعال انگیزی کرنے لگے ہیں۔
گذشتہ دنوں جب بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوری نے لوک سبھا میں ہی بی ایس پی کے مسلم رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کے خلاف انتہائی گھٹیا ‘ مجرمانہ اور بیمار ذہنیت کی عکاسی کرنے والے الفاظ استعمال کئے ۔ سارے ملک میں اس پر بی جے پی کو عوامی ناراضگی اور تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ بی جے پی نے اس پر دبے الفاظ میں بحالات مجبوری افسوس کا اظہار تو کیا لیکن ساتھ ہی دانش علی کے خلاف ایک طرح کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش شروع ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کے دو ارکان پارلیمنٹ نے اسپیکر کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے دانش علی کے خلاف تحقیقات کی اپیل کی ہے ۔ یہ در اصل رمیش بدھوری کے گندے اور بیہودہ الفاظ کا جواز پیش کرنے کی کوشش ہے جو بالواسطہ طور پر کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ اب نہ ملک اقدار کو مان رہے ہیں اور نہ ہی روایات کی پاسداری کی جا رہی ہے ۔ وہ اپنے اقتدار کے نشہ میں آپے سے باہر ہونے لگے ہیں اور کچھ کو تو آئندہ انتخابات میں اپنی شکست کے اندیشے بھی ستانے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام کاج کے ذریعہ عوامی تائید حاصل کرنے کی بجائے فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ وہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں جو انتہائی افسوسناک ہے ۔ اگر کسی شخص سے اتفاقا کوئی بات منہ سے نکل جائے اور پھر بعد میں پچھتاوا ہو تو سمجھا جاسکتا ہے لیکن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس طرح کی حرکتیں ناقابل قبول ہیں۔
بات صرف ارکان پارلیمنٹ تک بھی محدود نہیں رہ گئی ہے ۔ کئی مینڈک اب ایک ہی راگ میں ٹرانے لگے ہیں۔ ان سب کے نشانہ پر مسلمان ہی دکھائی دے رہے ہیں اور نازیبا اور بیہودہ الفاظ کے استعمال سے بھی کوئی گریز نہیں کر رہا ہے ۔ ملک کے عوام کو ساری صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے گنگا جمنی تہذیب کے ماحول کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے ‘ ملک کی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے ‘ ملک میں امن و بھائی چارہ کی برقراری کیلئے عوام کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں نفرت کا بازار گرم کرنے والوں کو اپنے حق رائے دہی کے ذریعہ سبق سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کی سازشوں پر روک لگائی جاسکے ۔