نفرت کہاں تک ؟

   

وہ حادثے بھی دہر میں ہم پر گزر گئے
جینے کی آرزو میں کئی بار مرگئے
گجرات کو ہندوستان میں ہندوتوا کی امتحان گاہ قرار دیا جاتا رہا ہے ۔ یہ وہی ریاست ہے جہاں 2002 میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ۔ ہزاروں مسلمانوں کا اجتماعی قتل کردیا گیا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سنگین اور انسانیت کو رسواء کرنے والے گناہ کے مرتکب افراد کو سزائیں ملنا تو دور کی بات ہے ان پر انعامات وا کرام کی بارش ہوگئی ہے ۔ اب یہ لوگ اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ اسی ریاست میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ صورتحال اس حد تک زہر آلود اور پراگندہ ہوگئی ہے کہ یہاں مسلمانوں کو مخالف سیاسی جماعتیں بھی انتخابی مہم کا حصہ بنانے سے گریز کرتی نظر آ رہی ہیں اور یہ واضح کہا جا رہا ہے کہ مسلم قائدین کی جانب سے انتخابی مہم چلائے جانے پر ہندو ووٹرس ناراض ہوجائیں گے ۔ یہ بیمار ذہنیت کی علامت ہے ۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ گجرات میں حکومت کی سطح پر بھی مسلمانوں سے نا انصافیاں ہوتی ہیں۔ سرکاری ملازمتیں مسلمانوں کیلئے محض ایک خواب بن کر رہ گئی ہیں۔ سرکاری اسکیمات بھی مسلمانوں کیلئے نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر کچھ اسکیمات ہیں بھی تو ان پر عمل آوری نہیں ہوتی ۔ مسلم استفادہ کنندگان کی تعداد صفر کے قریب ہوگئی ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست کے عوام کے ذہنوں کو اس قدر پراگندہ کردیا گیا ہے کہ گجرات کے کئی شہروں میں بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاںمسلمانوں کو کرایہ پر گھر نہیں دیا جاتا ۔ کسی اپارٹمنٹ یا رہائشی سوسائیٹی میں مسلمانوں کو فلیٹ یا اپارٹمنٹ فروخت نہیں کیا جاتا ۔ ان کے ساتھ انتہاء درجہ کا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں رسواء کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ ایسے واقعات کی اطلاع دینے والوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دیدی جاتی ہے ۔ مسلمانوں کا ایک طرح سے معاشی مقاطعہ تک کیا جاتا ہے ۔ ان کو سماج کا حصہ سمجھنے سے انکار کیا جاتا ہے ۔ ان کے ساتھ سماجی مراسم کو بھی برداشت کرنے کو لوگ تیار نہیں ہیں اور یہ ساری صورتحال اس ریاست کی ہے جہاں سے اس ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ تعلق رکھتے ہیں۔
گجرات کے ودودرہ شہر کی ایک عمارت میں ایک مسلم خاتون کو سرکاری سطح پر مکان الاٹ کیا گیا ۔ اس کے خلاف علاقہ کے اور اس عمارت سے تعلق رکھنے والے ہندووں نے احتجاج شروع کردیا ۔ یہ ہندوستان کے سکیولر کردار پر ایک طمانچہ سے کم نہیں ہے ۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو داغدار اور سیاہ کرنے کیلئے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی آج کے دور میں کوئی اہمیت نہیں رکھی گئی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ گجرات کے عوام تجارت پیشہ ہوتے ہیں اور اس میں مہارت رکھتے ہیں۔ تاہم تجارت پیشہ لوگ فرقہ وارانہ تعصب سے کام نہیں لیتے ۔ اس سے انہیں اپنی تجارت متاثر ہونے کا شبہ ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود گجرات میں جو صورتحال پیدا کردی گئی ہے اس نے ملک کی نیک نامی کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے ۔ اگر ایک مسلم خاتون کو سرکاری طور پر مکان الاٹ کیا جاتا ہے تو اس کے خلاف جس بے شرمی کے ساتھ احتجاج کیا گیا ہے وہ مذموم حرکت ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں کے خلاف حکومت کی سطح پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیاں اس طرح کے معاملے میں آنکھیں مودیں خاموش ہوجاتی ہیں۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے والے واقعات پیش آتے ہیں اس پر بھی ایجنسیاں خاموش رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے بیمار ذہنیت کے حامل تفرقہ پرور اور شدت پسند عناصر کی بالواسطہ حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ان کے دلوں سے قانون کا خوف ختم ہونے لگا ہے ۔
گجرات کے عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اس طرح کی حرکتیں ان کیلئے بدنامی اور رسوائی کا باعث ہونگی ۔ گجرات کے باشندے ملک بھر میں تجارت کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے کئی شہروں میں تجارتی تعلقات بھی ہیں ۔ اس طرح کے واقعات سے ان کے تجارتی تعلقات پر اثر ہوسکتا ہے ۔ ریاست کا نام بھی بدنام ہو رہا ہے اور اس طرح کے واقعات سے دنیا بھر میں ملک کا نام بھی متاثر ہوگا ۔ اس طرح کی زہر آلود فضاء ہندوستان کیلئے ٹھیک نہیں ہوسکتی ۔ ایسے واقعات کے تدارک کیلئے سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے اور تفرقہ پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہئے ۔