نفرت کی سیاست اور اتحاد کی روایت پر حملے

   

رام پنیانی
ہندوستان کثرت میں وحدت اور تنوع کی ایک روشن مثال ہے۔ ہمارا ملک تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی تنوع سے مالامال ہے اور اس کی تہذیبی اور مذہبی دولت اس کے تنوع میں پنہاں ہے۔ ایک اور اہم بات ہے کہ اس سرزمین پر آنے والے کاروان اور قافلوں کے بارے میں کئی شعراء اور ادیبوں نے ایک خوبصورت تصویر پیش کی ہے۔ یہ ایسی تصویر ہے جو ایک طرح سے بولتی ہے اور ہمارے تہذیبی و ثقافتی میل میلاپ کا ایک حسین گلدستہ بناتی ہے۔ جہاں تک ہمارے ملک کی تہذیبی و ثقافتی حُسن اس کے تنوع کا سوال ہے، یہ تحریک آزادی کے دوران اس وقت نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی جب انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارہ پانے کیلئے متنوع برادریوں کے لوگ متحد ہوگئے۔ اس دوران ہماری فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف فرقہ پرستی کا عمل بھی کچھ حد تک پروان چڑھا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مخالفین نے متنوع برادریوں کے اتحاد کو روکنے اس میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ فرقہ پرستی کا رجحان تقسیم ملک کے وقت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا تھا۔ آزادی کے ساتھ ہی ہم نے دیکھا کہ باہمی روابط اور ہم آہنگی بنیادی عمل ہے جبکہ تخریبی رجحانات کمزور اور معمولی تھے لیکن اب یہ کہنا پڑتا ہے کہ چار دہوں کے دوران نسلی نتعصب اور فرقہ واریت کے رجحان بڑی تیزی کے ساتھ اپنا بدنما سَر اٹھا رہے ہیں اور پوری شدت کے ساتھ ہندوستانی تنوع کی مخالفت کررہے ہیں۔ حالیہ ہفتوں کے دوران ہم نے انتہاء پریشان کن حالات کا مشاہدہ کیا۔
دیوبند میں واقع ایک چھوٹے سے مدرسہ کے ایک مولانا نے ایک مسلم گلوکار فرزانی ناز کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ ناز کا گایا ہوا ایک بھجن ’’ہر ہر شمبھو‘‘ کافی مقبول ہوا ہے۔ آپ کو بتا دوں کہ جن مولانا نے فرزانی ناز کے خلاف فتویٰ جاری کیا، وہ ان ٹی وی چیانلوں کے پسندیدہ مولانا ہیں جو اپنے پرائم ٹائم ٹی آر پی بڑھانے کی خاطر دونوں مذاہب کے انتہا پسند عناصر کو مدعو کرکے انہیں دوبدو کرتے ہوئے مباحث کراتے ہیں۔ انہیں ہرگز ہرگز ٹی وی مباحث نہیں کہا جاسکتا بلکہ مرغوں کی لڑائی کہا جاسکتا ہے۔ یہ ٹی وی چیانلس اس طرح کے انتہا پسند مرغوں معاف کرنا انتہا پسند خیالات کے حامل لوگوں کو اپنے پروگرامس میں مدعو کرکے اس کے ثمرات حاصل کرتے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ فرزانی کے خلاف فتویٰ جاری کرنے والے مولانا کا دارالعلوم دیوبندسے کچھ لینا دینا نہیں ہے جبکہ دارالعلوم دیوبند کی سارے ہندوستان میں اپنی ایک الگ پہچان ہے اور وہاں سے فتوے بھی جاری کئے جاتے ہیں۔ فتویٰ دراصل رائے کی ایک قسم ہوتی ہے۔
جعلی مولانا
فتویٰ جاری کرنے اور عجیب و غریب حرکتیں کرنے والے مولانا اسد قاسمی ہمارے ملک کی مذہبی ، تہذیبی و ثقافتی تنوع سے بالکل واقف نہیں۔ انہیں مسلم بھجن گلوکاروں کی ایک عظیم روایت سے بھی واقفیت نہیں جو محمد رفیع سے فرزان خان تک پھیلی ہوئی ہے جن کے بھجنوں نے ہندو مذہبی موسیقی، ہندو مذہبی گائیکی میں ناقابل فراموش اہم حصہ ادا کیا ہے۔ مولانا اسد قاسمی جیسے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ صرف مسلم گلوکاروں نے ہی بھجن نہیں گائے بلکہ نوشاد علی سے لے کر اے آر رحمن جیسے عظیم میوزک ڈائریکٹروں نے بھجنوں کو اپنی خوبصورت موسیقی سے سجایا ہے۔ اگر اس طرح کے گلوکاروں و موسیقاروں کی فہرست تیار کی جائے تو کئی صفحات بھرجائیں گے، لیکن راقم آپ کے سامنے صرف دو کی مثال پیش کرنا چاہے گا۔ جہاں تک میری پسند کا سوال ہے، میرا پسندیدہ بھجن ’’من ترپت ہری درشن کو آج‘‘ ہے جسے محمد رفیع نے گایا، شکیل بدایوانی نے اسے لکھا۔ میں یہ دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ ’’ہری اوم تت ست‘‘ جیسے بھجن کو کوئی میں بھول نہیں سکتا۔ یہ وہ بھجن ہے جسے کسی اور نے نہیں بلکہ بڑے غلام علی خاں نے گایا، یہ کوئی ون وے ٹریفک جیسا معاملہ نہیں رہا کیونکہ ایسے بے شمار مشہور و معروف ہندو گلوکار بھی ہیں جنہوں نے قوالی گاتے ہوئے فن قوالی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں پربھا بھارتی اور دھروو سنگاری سرفہرست ہیں۔ آپ کو یاد دلادوں کہ چند سال قبل ایک بنگالی فلم اداکارہ اور رکن پارلیمنٹ نصرت جہاں کو درگا پوجا میں حصہ لینے پر مولانا اسد قاسمی جیسے مولویوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، حالانکہ درگاہ پوجا بنگالی تہذیب کا حصہ ہے۔ سرحد پار ایک مسلم کالج ٹیچر کو ہندی لگانے پر پولیس نے ہراساں کیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ یہ ایک ہندو پریکٹس ہے۔ یہ اچھا ہوا کہ اس معاملے میں کچھ پولیس والوں کو معطل کردیا گیا۔
ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں الگ تھلگ ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ بعض اسکولوں نے اپنے طلباء کیلئے مختلف عبادت گاہوں کے دوروں کا پروگرام شروع کیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بجرنگ دل جیسی تنظیمیں اس قسم کے پروگرامس کی شدت سے مخالفت کررہی ہیں۔
حال ہی میں دہلی پبلک اسکول ودودرہ نے مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کے طلباء کو دورے کروائے اور وہاں کی جانے والی عبادتوں و فلاحی کاموں سے واقف کروانے کے پروگرام کے تحت طلبہ کو ایک مسجد کا دورہ کروانے کا منصوبہ بنایا لیکن بجرنگ دل نے فوری مداخلت کرتے ہوئے اس کے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ نتیجہ میں مسجد کے دورہ کو منسوخ کرنا پڑا۔ مسجد کی بجائے ان طلبہ کو ایک مندر لے جایا گیا۔ اس طرح کے واقعات کی اطلاعات ، دہلی ،کرناٹک اور دوسرے مقامات سے بھی موصول ہورہی ہیں۔ ہماری ہم آہنگی پر اس طرح کے حملوں میں شدت پیدا ہوگئی ہے کیونکہ اب تو لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سیاست روز کا معمول بن گئی ہے۔
عوام کو مذہبی خطوط پر کس طرح تقسیم کیا جارہا ہے، اس کی چونکا دینے والی مثالوں کا حال ہی میں اس وقت مشاہدہ کیا گیا جب انڈین نیشنل کانگریس نے قیمتوں میں اضافہ، جی ایس ٹی اور دوسرے سلگتے مسائل کے خلاف راشٹرپتی بھون تک مارچ کرنے پارلیمنٹ پر احتجاج منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ کانگریس کے ان احتجاجی قائدین نے احتجاجی علامت کے طور پر سیاہ لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ اس احتجاج کو بھی بی جے پی نے حسب توقع لوگوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے سے متعلق اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے استعمال کیا۔ بی جے پی کے بڑے لیڈر اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا تھا کہ کانگریس ایودھیا میں رام مندر کی مخالفت کرنے کی کوشش کررہی ہے کیونکہ ہر احتجاج 5 اگست کو کیا گیا۔ اس دوران مودی نے چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے سیاہ لباس زیب تن کرتے ہوئے احتجاج کرنے والے کانگریس قائدین نے رام کے عقیدت مندوں کی توہین کیلئے معذرت خواہی کا مطالبہ کیا۔
ہر چیز کو مذہبی بنا دینا، ہر مسئلہ کو جذباتی شکل دینا، ہر معاملہ پر لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنا آج کا رجحان بن گیا ہے اور یہ خطرناک رجحان بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں کیا دوسری اپوزیشن جماعتیں اور سماجی تحریکیں بی جے پی کے اس ہتھیار کا مقابلہ کرسکتی ہیں؟ کیا جمہوری اور سکیولر عناصر، گروپس اور جماعتیں عوامی مسائل سے پیدا ہونے والے خلفشات کو ہضم کرسکتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی اپنی ذیلی تنظیموں اور اس کے تابع میڈیا کی مدد سے ایک ایسے ایجنڈہ پر کام کررہی ہے جس میں عوامی مسائل کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔