نفرت کی سیاست اور نفرت کی تشہیر کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ

,

   

ہندو خاتون کی ارتھی کو مسلم روزہ داروں نے کاندھا دیا ، نرمل میں گنگا جمنی تہذیب کی مثال

نرمل ۔ 26؍ اپریل ( جلیل ازہر کی رپورٹ) چراغ گھر کا ہو محل کا ہو کہ مندر کا ہو ہوا کے پاس کوئی مصلحت نہیں ہوتی ۔ انسان کو بھی چاہئے کہ وہ تنگ نظری کے حصار سے باہر آئے اور عملی گنگا جمنی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے نفرت کی تخم ریزی کر رہے ان لوگوں کو بتا دے کہ مٹھی بھر لوگ مذہب کے نام پر نفرت پھیلاتے ہوئے اپنی سیاسی دکان یا ٹی وی چینل زیادہ دن نہیں چلا سکتے ۔ نرمل کا یہ واقعہ نفرت کی سیاست اور نفرت کی تشہیر کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ محلہ گابل پیٹ میں یکم رمضان المبارک کے دن یلماں نامی 63 سالہ خاتون کی طبعی موت کے باوجود جاریہ کورونا وائرس کے خطرہ نے رشتہ داروں کے درمیان خوف کی دیوار کھڑا کر دی ،ایسے ماحول میں اسی خاتون کے پڑوسی نوجوان عمران اللہ جو اسی سال اس علاقے سے رکن بلدیہ منتخب ہوئے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بالخصوص سہارا ویلفیر سوسائٹی کے متحرک نوجوان محمد اظہر خان اور ساتھیوں کے ہمراہ اس خاتون کی ارتھی کو روزہ داروں نے کاندھا دیا اور آخری رسومات انجام دی ۔اس انسانیت کی جیتی جاگتی تصویر کو دیکھ کر ہر شہری پر سکتہ طاری ہوگیا ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ سیاسی دکان پر مسلمانوں کو چھڑکاؤ کرنے والے اور عدم تعصب کی پگڑی پہن کر مسلمانوں کو سیاسی رقابت کرنے والے سیکولر قائدین کو یہ واقعہ غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ آج گابل پیٹ کے نوجوانوں کے اس کارنامہ پر ہر طرف سے ستائش ہو رہی ہے ۔ نیز صحافی و اسٹاف رپورٹر روزنامہ سیاست نے بھی فرا فردا ان نوجوانوں کو فون کے ذریعہ ان کے خدمات و احساسات کی ستائش کی ۔ ارتھی کے جلوس میں محمد عمرن اللہ ‘ جنید ‘ متین الطاف احمد ‘ محمد اظہر خان ہوم گارڈ سہارا یوتھ سوسائٹی کے علاوہ این چنو شامل تھے ۔