نقلِ مقام در عدتِ وفات

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر کے انتقال پر انکی زوجہ ہندہ مرحوم کے مکان میں عدت گزار رہی ہے۔ اب علاتی لڑکے کی طرف سے جان کا خوف پیدا ہوگیاہے۔ ایسی صورت میں کیا وہ اس مکان سے منتقل ہوسکتی ہے یا نہیں ؟بینوا تؤجروا
جواب : صورت مسئول عنہا میں جبکہ ہندہ کو موجودہ مکان میں عدت گزارنے سے جان کا خوف پیدا ہوگیا ہے تو شرعاً محفوظ مقام پر منتقل ہونا شرعاً جائز ہے۔ لیکن جس مقام پر وہ منتقل ہوگی وہاں سے ختم عدت تک نہیں نکل سکتی۔ ان اضطرت الی الخروج من بیتھا بأن خافت سقوط منزلھا أو خافت علی مالھا… فلابأس عند ذلک أن تنتقل … واذا انتقلت لعذر یکون سکناھا فی البیت الذی انتقلت الیہ بمنزلۃ کونھا فی المنزل الذی انتقلت منہ فی حرمۃ الخروج عنہ … لوکانت بالسواد قد دخل علیھا الخوف من سلطان أو غیرہ کانت فی سعۃ من التحول الی المصر کذا فی المبسوط۔ عالمگیری جلد اول صفحہ ۵۳۵ ۔ فقط واﷲ أعلم

آئی جے اسمٰعیل چشتی ابوالعلائی
حضرت شاہ عزت اﷲ المعروف میاں صاحب قبلہؒ
اﷲ تبارک و تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا ارشاد مقدس ہے کہ ’’اﷲ جب کسی کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اس کے سینہ کو کھول دیتا ہے علم کیلئے ‘‘ اور سینہ کو کھولنے اور سنوارنے کا کام اﷲ نے اپنے کامل ولیوں کے سپرد کیا ۔ ان ہی کی صحبت کے ذریعہ بندہ قرب خدا حاصل کرتا ہے اور اس کا ظاہر اور باطن سنور جاتا ہے ۔ ان ہی مقدس ہستیوں میں جن پر اﷲ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا حضرت شاہ عزت اﷲ المعروف بہ میاں صاحب قبلہ نقشبندی قادری چشتی نظامی ابوالعلائی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ ہے ۔ آپ کے آباء و اجداد اپنے وقت کے کاملین میں سے تھے ۔ حضرت کے والد گرامی کا اسم مبارک حضرت عزیز اﷲ ؒ ہے ۔حضرت عزت اللہ شاہؒ نے ابتداء میں اپنے ہی ہم وطن بزرگ میاں چوڑے خانؒ سے رجوع ہوئے ۔ خان صاحب نے آپ کو ذکر و شغل کی تعلیم فرمائی ۔ آپؒ نے فقر و فاقہ ذکر و شغل سے تزکیہ نفس فرمائی اور بہت جلد مدارج طئے فرمائے ۔ پھر خان صاحب مذکور سے بیعت کی درخواست کی ۔ انھوں نے فرمایا کہ تمہاری قسمت کسی اور جگہ رہبری کررہی ہے۔ دہلی میں حضرت مولانا برہان الدین خدا نما ابوالعلائی خالص پوریؒ اس دور کے بہت بڑے بزرگ قطب و ابدال میں ہیں ان کے نام خط لکھ دیتا ہوں تم ان کے پاس جاکر ان سے بیعت کرو ۔ آپ نے اس مشورہ پر عمل فرمایا اور حضرت مولانا برہان الدین خدانما ابوالعلائی نے شیرینی اور پھول منگوائے اور آپ کو سلسلہ طریقت میں منسلک فرماکر ارشاد فرمایا کہ میاں صاحب سلوک کے تین درجے تو طئے ہوچکے ہیں ابھی دو درجے اور باقی ہیں پھر اس دن سے آپ ’’میاں صاحب ‘‘ کے لقب سے مشہور ہوگئے ۔ حضرت میاں صاحب قبلہؒ اپنے پیر و مرشد کا عرس بصدعقیدت و احرام منایا کرتے ۔ ۱۲۰۹؁ ہجری میں حضرت میاں صاحب قبلہ نے بتاریخ ۱۷ صفر المظفر اس دارفانی سے داربقاء کی طرف کوچ فرمایا اور وصال سے قبل نعمت ہائے باطنی اور امانت ابوالعلائیہ کو حضرت شاہ محمد قاسم ابوالعلائی المعروف بہ حضرت شیخ جی حالی صاحبؒ سپرد فرماکر ارشاد فرمایا کہ ’’جاؤ میں نے تم کو خدا کے سپرد کیا‘‘۔ پھر دکن کی جانب جاکر فیضان ابوالعلائیہ جاری کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ ہر سال بارگاہ میاں صاحب قبلہؒ ( بگڑ راجستھان ) میں ۱۶ اور ۱۷ صفر المظفر کو آپ کا عرس شریف بصد و عقیدت منایا جاتا ہے ۔ اسی کے چلتے حضرت شیخ جی حالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اردو شریف، گلزار حوض ، حیدرآباد دکن میں بھی میاں صاحب قبلہؒ کا عرس شریف بصدعقیدت و احترام منایا جاتا ہے جس کا سلسلہ آج تک جاری اور ساری ہے ۔