نقل کفالے کی مشروط اجازت

   

کے این واصف
سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکیوں میں لاکھوں کی تعداد ان افراد کی ہے جو گھریلو ملازمین کے طور پر سعودی باشندوں کے گھروں میں فیملی ڈرائیور ، خادمہ ، نرس ، Baby Sitter ، خانسا مان (باورچی ) باغبان (مالی) وغیرہ کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ ان غیر ملکی ملازمین میں ہندوستانی ، بنگلہ دیشی ، پاکستانی اور انڈونیشی اکثریت میں ہیں۔ ظاہر ہے یہ لوگ اپنے وطن میں بیروزگاری اور معاشی مسائل سے تنگ آکر غیر ملک میں چھوٹی ملازمتیں قبول کرلیتے ہیں ۔ اس قسم کی ملازمتیں کرنے والے صرف سعودی عرب میں ہی نہیں بلکہ سارے خلیجی ممالک میں ملیں گے اور اتنی ہی بڑی تعداد میں ہوں گے ۔ یہاں کام کرنے والے دیگر غیر ملکی کارکنان کی طرح گھریلو ملازمین کے بھی مسائل ہوتے ہیں ، مگر ان کے مسائل کچھ الگ نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ ہم اکثر این آر آئیز کے مسائل کے بارے میں اس کالم میں لکھتے رہتے ہیں ۔ وقت پر تنخواہ نہ ملنا ، معاہدے کے مطابق چھٹی کا نہ دیا جانا تو غیر ملکی کارکنان میں ایک عام مسئلہ ہے لیکن گھریلو ملازمین کیونکہ کسی انفرادی شخص کی کفالت میں کام کرتے ہیں اور اپنے کفیل اور اس کے اہل خانہ کی خدمت پر مامور رہتے ہیں تو ان کے ساتھ صرف تنخواہ کا وقت پر نہ ملنا یا چھٹی معاہدے کے مطابق نہ دیا جانا تو ہے ہی مگر ان ملازمین کے ساتھ گھروں میں بدتمیزی ، بدسلوکی ، مارپیٹ اور تشدد کے واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ کبھی کبھار تو خادمائیں جنسی ہراسانی اور استحصال کا شکار بھی ہوتی ہیں۔ یہاں اس کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ سفارت خانہ ہند نے سن 2006 ء میں گھریلو خاتون ملازمین پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے پیش نظر ہندوستان سے آنے والی خادماؤں کے ویزا کے اجرائی میں کافی سخت شرائط قائم کردیں تھیں۔ تب سے یہاں گھریلو خدمت کیلئے ہندوستانی عورتوں کا آنا کم ہوا ۔ دوسرے جو مرد حضرات فیملی ڈرائیور (سائق خاص) کے ویزا پر یہاں آتے ہیں وہ کبھی کبھی مسائل میں پھنس جاتے ہیں۔ سعودی لیبر قانون کے مطابق فیملی ڈرائیور (سائق خاص ) کا ویزا یا اقامہ رکھنے والے کا کسی ادارے یا کمپنی میں نقل کفالہ ( ٹرانسفر آف اسپانسرشپ) نہیں ہوسکتا ۔ لہذا انہیں مسائل پیش آنے کی صورت میں خروج (Exit) لے کر وطن واپس ہونا پڑتا ہے لیکن اس ہفتہ وزارت محنت و سماجی بہبود کے ایک بیان نے خانگی ملازمین کو ایک امید کی کرن دکھائی ہے ۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی وزارت محنت نے گھریلو عملے کو اداروں میں نقل کفالہ (اسپانسرشپ ٹرانسفر) کرانے کی مشروط اجازت دی ہے ۔ مملکت میں لاکھوں غیر ملکی باشندے سعودی گھرانوں میں ڈرائیورز اور گھریلو عملے کے طور پر ملازمتیں کر رہے ہیں۔ یہ گھریلو ملازمین دیگر کفیل کے ہاں ملازم کے طور پر نقل کفالہ کراسکتے ہیں ۔ تا ہم کوئی بھی گھریلو ملازم کسی ادارے میں نقل کفالہ نہیں کراسکتا۔ مگر ایک نیوز پورٹل (االمرصد ویب سائیٹ ) کے مطابق وزارت محنت و سماجی بہبود نے انسانی بنیادوں پر گھریلو عملے کو اداروں میں نقل کفالہ کی مشروط اجازت دینا شروع کردی ہے ۔ وزارت محنت نے یہ سہولت اپنی ویب سائیٹ پر فراہم نہیں کی تاہم وزارت کی شاخوں کے توسط سے گھریلو ملازم اداروں میں نقل کفالہ کرسکتے ہیں ۔ اس پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے ۔ اس سے غیر ملکی خانگی ملازمین کے مسائل کسی حد تک حل ہوں گے ۔ عربی روزنامہ ’’عکاظ‘‘ کے مطابق وزارت محنت نے نقل کفالہ کی ایک شرط یہ لگائی ہے کہ گھریلو کارکن کے اقامے کی تجدید ایک برس سے زیادہ مدت کیلئے نہیں ہوگی ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گھریلو ملازمین کو ادارہ جاتی فیس سے استثنیٰ حاصل ہے ۔ وزارت محنت نے گھریلو ملازمین کو اداروں میں نقل کفالہ کی کارروائی کیلئے ایک فارم تیار کیا ہے ۔ اس میں پیشے کی تبدیلی کا خانہ بھی رکھا گیا ہے ۔ کارکن سے یہ اقرارنامہ بھی لیا جائے گا کہ وہ گھریلو کفیل سے ادارے کیلئے نقل کفالہ کے حق میں ہے اور وہ نئے آجر کے یہاں نقل کفالہ اور مطلوبہ پیشے کی تبدیلی کی کارروائی مکمل ہونے سے قبل کام نہیں کرے گا ۔ عربی سے ناواقف افراد کیلئے فارم کا ترجمہ ہوگا ۔ فارم میں ادارے کا نام ، فائل نمبر ، عہدیدار کا نام ، اس کے دستخط اور ادارے کی مہر بھی مطلوب ہوگی ۔ وزارت محنت ایک شرط یہ بھی ہے کہ نقل کفالہ کے امیدوار گھریلو ملازم کو اپنے موجودہ آجر سے نقل کفالہ کی منظوری کا خط حاصل کرنا ہوگا ۔ اس خط کی Chamber of Commerce یا محلے کے عمدہ (کونسلر) سے تصدیق کرانا ہوگی یا لیبر آف سے بھی اس کی کارروائی ہوسکتی ہے ۔ امیدوار کو ایک خط متعلقہ ادارے سے حاصل کرنا ہوگا جس میں وہ تحریر کرے گا کہ اسے فلاں کارکن کی خدمات درکار ہیں، یہ خط بھی (Chamber of Commerce) ایوان صنعت و تجارت سے مصدقہ ہونا ضروری ہوگا ۔ ایک شرط یہ بھی ہوگی کہ کارکن کے نقل کفالہ سے ادارے سے گرین نطاق سے خارج نہ ہورہا ہو ۔ (گرین نطاقہ میں ایسی کمپنی رہتی ہے جس میں سعودی ملازمین کی تعداد غیر ملکی باشندوں سے زیادہ ہو)
سعودی عرب میں کچھ ایسے پیشے ہیں جن کا نقل کفالہ نہیں ہوتا ۔ اوپر ہم نے صرف فیملی ڈرائیور (سائق خاص ) کا ذکر کیا ہے ۔ مگر صرف فیملی ڈرائیور کا ہی نہیں بلکہ یہاں کچھ اور بھی پیشے ایسے ہیں جن کا نقل کفالہ نہیں ہوتا ۔ ان میں باورچی (طباق ) درزی (خیاط) نائی (حلاق) چرواہا (راعیی) زراعی مزدور (عامل زراعیی) وغیرہ ۔
ہندوستان ، بنگلہ دیش اور پاکستان میں ’’آ زاد ویزا‘‘ کی خرید و فروخت عام ہے ۔ اس سے قبل بھی ہم نے واضح کیا تھا کہ آزاد ویز ا نام کا کوئی ویزا حکومت کی جانب سے جاری نہیں ہوتا بلکہ یہاں کچھ مقامی افراد کاغذی کمپنیاں قائم کر کے کسی بھی پیشے کے ویزے حاصل کرتے ہیں اور انہیں ما رکٹ میں فروخت کردیتے ہیں ۔ ویزے کا کاروبار کرنے والوں کے پاس آزاد ویزا کا مطلب ایسا ویزا جس میں ویزا خریدنے والے کو کوئی ملازمت نہیں ملے گی بلکہ وہ آزاد ویزا پر یہاں آئے گا اور اپنی تعلیم / قابلیت کی بنیاد پر خود کوئی ملازمت تلاش کرے گا اور پھر اس کمپنی یا ادارے میں اپنا نقل کفالہ کروا لے گا ۔ یہاں ان تفصیلات کا خصوصی طور پر ذکر اس لئے کیا گیا کہ ہمارے ملک میں اب بھی آزاد ویزا خریدکر یہاں آنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ ان لوگوں کو ویزا خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں یہ ویزا اوپر ذکر کردہ پیشوں کا تو نہیں ہے ۔ اگر وہ ایسا ویزا خرید لیں تو یہاں پہنچ کر مشکل میں پھنس جائیں گے ۔
نقل کفالہ کی جو مشروط اجازت دی گئی ہے اس کی شرائط بہت سخت ہیں ۔ ان کو پورا کرنا غیر ملکی باشندوں کیلئے قدرے مشکل ہے ۔ اب اسے یوں سمجھنا چاہئے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بھی کافی ہے ۔ بہرحال گھریلو ملازمین کے تئیں حکومت نے اپنا رویہ کچھ تو نرم کیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں اس میں کچھ اور نرمی پیدا ہو ۔
جشن جموریہ ہند
سفارت خانہ ہند ریاض میں 71 ویں یوم جمہوریہ ہند روایتی جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا ۔ سفیر ہند ڈاکٹر اوصاف سعید نے سفارت خانہ ہند کے احاطہ میں ترنگا لہراکر یوم جمہوریہ تقاریب کا افتتاح کیا ۔ پرچم کشائی کے بعد سفیر ہند نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کا پیام پڑھ کر سنایا جس کے بعد انٹرنیشنل انڈین اسکول ریاض اور انٹرنیشنل انڈین پبلک اسکول کی طالبات نے ایک رنگا رنگ کلچرل پروگرام اور قومی گیت پیش کئے ۔ حسب روایت اسی شام ایمبسی نے یوم جمہوریہ کے سلسلے کی دوسری تقریب کلچرل پیالس ریاض میں منعقد کی ۔ اس تقریب میں مختلف ممالک کے سفارت کاروں اور کچھ انڈین کمیونٹی کی سرکردہ شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے ۔ اس تقریب میں ہمیشہ کی طرح گورنر ریاض پرنس فیصل بن بندر آل سعود نے بحیثیت مہمان خصوصی شر کت کی ۔ تقریب میں مہمانان کی دلچسپی کیلئے تصویروں اور پینٹنگس کی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔ اس نمائش میں ہندوستانی فنکاروں نے اپنے شہ پارے پیش کئے تھے ۔ ان میں مصروف پینٹر مسز صبیحہ مجید صدیقی، کرنل منیش ناگپال ، مسز ونی اور رقم الحرف شامل تھے ۔
گورنر ریاض شہزادہ فیصل آل سعود نے کیک کاٹ کر تقریب کا افتتاح کیا ۔ اس موقع پر سفیر ہند ڈاکٹر اوصاف سعید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چند ماہ کے عرصہ میں ہند سعودی تعلقات نے ہمہ جہت ترقی کی اور دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس استحکام اور خوشگوار تعلقات سے سعودی عرب میں کام کرنے والے 26 لاکھ سے زائد ہندوستانیوں پر بھی مثبت اثرات مرتبہ ہوئے جس کیلئے ہم سعودی قیادت کے مشکور ہیں ۔ ڈاکٹر اوصاف سعید نے کہا کہ دونوں ممالک کی قیادت مختلف شعبہ جات میں باہمی تعلقات کو مزید وسیع کرنا چاہتی ہیں جس میں تجارت ، سرمایہ کاری ، معاشی تعاون ، انفراسٹرکچر اور دفاعی تعاون ، انرجی ، تغذیہ ، صحت، تفریحات ، شہری ہوا بازی ، سیاحت اور کلچر وغیرہ جیسے شعبے شامل ہیں۔ سفیر ہند نے اپنے خطاب کے اختتام سے قبل پینٹر مسز صبیحہ مجید صدیقی ، کرنل منیش ناگپال ، مسز ونی اور آرکیٹکچرل فوٹو گرافر کے این واصف جن نے فن پارے اس تقریب میں رکھے گئے تھے ان کا تفصیلی تعارف پیش کیا ۔ مسز صبیحہ مجید ہندوستان کی ایک معروف پینٹر ہیں جن کا تعلق راجستھان سے ہے انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے BFA کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ کرنل منیش ناگپال سفارت خانہ ہند میں ڈیفنس اتاشی ہیں اور شوقیہ طور پر پینٹنگ بھی کرتے ہیں ۔ مسز ونی کا تعلق ریاست کیرالا سے ہے ۔ ان کی فن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی پینٹنگس بنانے کیلئے Brush کا استعمال نہیں کر تیں بلکہ رنگوں میں انگلیاں ڈبوکر پینٹنگ بناتی ہیں اور راقم الحروف نے ہندوستان کے مشہور تاریخی عمارتوں کو اپنے کیمرے میں قید کیا ہے اور میرے پاس ا پنے قیمتی تا ریخی ورثے کی سینکڑوں تصاویر ہیں جن کی نمائش وقتاً فوقتاً کرتا رہتا ہوں ۔
knwasif@yahoo.com