نماز کیا ہے

   

ڈاکٹر حسن الدین صدیقی
نماز اﷲ کی یاد کے لئے ہے ۔ فرمانِ ایزدی ہے کہ ’’اور میری یاد کے لئے نماز قائم کر ‘‘ (طہٰ آیت ۱۴) ہر بندۂ مومن کے لئے لازم ہے کہ وہ اﷲ کے ذکر سے غافل نہ رہے ۔ نماز فرضِ عین ہے اور مومن کی اولین پہچان ۔ قرآن حکیم میں نماز قائم کرنے کا تاکیدی حکم توارد کے ساتھ آیا ہے ( ھود آیت ۱۱۴ ،الرعد آیت ۲۲، بنی اسرائیل آیت ۷۱، طہٰ آیت ۱۳۲) اور مومنین پر اسے فرض گردانا گیا ہے : ’’یقینا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے ‘‘ (النسآء آیت ۱۰۳) ۔
قرآنِ حکیم میں اوقاتِ نماز کی صراحت بھی کردی گئی ہے (بنی اسرائیل ۷۸، طہٰ آیت ۱۳۰) اور ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : ’’میرے ایماندار بندوں سے کہدیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں ‘‘ (ابراھیم آیت ۳۱)
یہ یاد رہے کہ نماز کی ادائیگی میں کسی طرح کا تعرض و تساہل ناقبولِ معافی ہے ۔ سفر و حضر کی حالت میں بھی اور کسی ناگزیر صورت میں نماز کے قضاء ہوجانے پر نماز کی باز ادائیگی کے احکام واجب تعمیل ہیں۔ ڈر اور خوف کے ماحول میں بھی نماز کی فرضیت ساقط نہیں ۔ فرعون کی فتہ سامانی کے دور میں جبکہ موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے تمام پیروانِ اُمت کو قتل کردینے کی سازش رچی جارہی تھی ، رب اعلیٰ نے وحی فرمائی کہ (کھلے عام عبادت کے بجائے ) ’’اپنے گھروں کو ہی مسجد ( جائے نماز ) بنالیں ‘‘ (یونس آیت ۸۷) ’’اور نماز کے پابند رہیں‘‘ ۔
یہاں نماز قائم کرنے کا مطلب محض ادائیگی نماز ہی نہیں بلکہ معبود حقیقی کی یاد کو بہ تقاضائے عبدیت نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ استقلال و ہمیشگی بخشنا ہے کہ وہی حق ہے : ’’اُسی کو پکارنا حق ہے ‘‘ ( الرعد آیت ۱۴)
چنانچہ تمام پیغمبران و انبیاء علیہم السلام کا یہی پیغام و مشن رہا ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام جب کعبۃ اﷲ کی دیواریں اُٹھارہے تھے دُعا فرمایا کہ ’’اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی کچھ اولاد اس وادیٔ غیر ذی زرع میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے ۔ اے ہمارے پروردگار یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم کریں ‘‘ ( ابراھیم یت ۳۷) اور ’’اے میرے رب مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد کو بھی ، اے میرے رب میری دعا قبول فرما ‘‘ ( ابراہیم آیت ۴۰)
حُکم الہی ہے کہ ’’نماز کی تاکید کریں اپنے گھر والوں پر بھی اور خود بھی ‘‘ ( طہٰ ۱۳۲) اﷲ تبارک و تعالیٰ قرآن حکیم میں اس خصوص میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا ذکرِ جمیل فرماتا ہے کہ ’’وہ اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوٰۃ کا حُکم دیتے رہے تھے ‘‘ ( مریم ، آیت ۵۵) ملاحظہ ہو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی ماں کی گود ہی سے قوم سے خطاب کہ ’’اُس نے ( اﷲ) مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے جب تک میں زندہ رہوں ‘‘ ( مریم آیت ۳۱)اور حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت ’’اے میرے پیارے بیٹے تو نماز قائم رکھنا ‘‘ ( لقمان آیت ۱۷)
مزید برآں ہر مسلمان جانتا ہے کہ کس طرح رب اعلیٰ نے حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو معراج کے موقع پر اُمت مسلمہ کے لئے نماز کی فرضیت سے نوازا۔ اس لئے نماز مومن کیلئے ایک عطیہ خداوندی اور نعمت عظمیٰ ہے ۔ زماں و مکاں کے حدود امکانات سے پرے حضور ﷺ کا اﷲ جل شانہ کے قرب اور روبرو ہونے کا نام ہی معراج ہے ۔ اسی نسبت سے نماز کو معراج المؤمنین بھی کہا جاتا ہے کہ نماز میں مومن اﷲ کے روبرو ہوجاتا ہے اور خوف و تضرع سے اُس کی حمد و ثنا کرتا ہے اور انعام پاتا ہے : وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّـتَانِ( الرحمن آیت ۴۷) بے شک اﷲ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے (العنکبوت آیت ۴۵)