نوجوانوں میں اردوغان کی مقبولیت میں کمی :امریکی رپورٹ

   

واشنگٹن ۔امریکی ادارے کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق ترکی میں صدر رجب طیب اردوغان کی کم ہوتی ہوئی حمایت ملک سے باہر خود ساختہ طاقتور شخص کے کسی جارحانہ اقدام کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔امریکہ میں قائم ادارے سنٹر فار امریکن پراگریس (سی اے پی) نے ترک صدر اردوغان کی دائیں بازو کے قوم پرست ووٹرز خصوصاً نوجوان قدامت پسندوں میں ختم ہوتی ہوئی حمایت کی نشاندہی کی ہے۔سی اے پی کی جانب سے ہونے والے ملک گیر سروے کے مطابق حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے صدر رجب طیب اردوغان سے وفادار ووٹرزکی حمایت 10 فیصد کمی کے بعد66 فیصد پر آ گئی ہے۔ عرب میڈیا نے سروے کے حوالے سے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے میڈیا کا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوششوں کے معکوس نتائج سامنے آئے ہیں اور نوجوان نسل نے اپنی مایوسی کا اظہارکیا ہے۔ یونیورسٹیوں کے امتحانات سے ایک دن قبل اردوغان نے یوٹیوب پر نوجوان ترکوں سے ملاقات کی ویڈیو اپلوڈکی لیکن اس پر فوری طورپر 3 لاکھ ڈس لائکس (ناپسند) آ گئے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سخت گیر موقف رکھنے والے ترک لیڈر برسوں میں پہلی مرتبہ ملک میں اپنی حمایت کھو رہے ہیں اور یہ انتباہ ہوتا ہے کہ اس کا نتیجہ بیرون ملک مزید جارحانہ تحریکوں کی شکل میں سامنے آسکتا ہے اور علاقائی کشیدگی میں اضافہ کر سکتا ہے۔سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اردوغان کے اہم حلقے ان کی حکومت کی کارکردگی سے ناراض ہیں اور سرد مہری رکھتے ہیں۔آن لائن نیوز سے واقفیت رکھنے والی نسل بھی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی جانب سے سوشل میڈیا پر قدغنیں لگانے کی کوششوں پر ناراض ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک ترکی میں چار لاکھ سے زائد ویب سائٹس کو بند کیا جا چکا ہے۔سی اے پی کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں ایسے افراد کی تعداد70 فیصد تھی جو سمجھتے ہیں کہ میڈیا جانبدار اور ناقابل اعتبارہے جبکہ 2020 میں یہ تعداد بڑھکر 77 فیصد ہوگئی۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے ووٹرز کی تعداد بڑھی ہے۔