نوجوان نسل نے ملک کو بدلنے کی ٹھان لی

   

پی چدمبرم
ہندوستان 2020ء میں 1968ء کے امریکہ کی مانند معلوم ہورہا ہے۔ 1968ء میں فرانس کی صورتحال بھی مشابہ تھی۔ 1968ء کو یاد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں معمول کی سیاسی سرگرمی ناکام ہوگئی تھی اور اس کے ’اسباب‘ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اسٹوڈنٹس کے ہاتھوں میں منتقل ہوئے تھے۔ 1968ء میں اصل سبب ویتنام جنگ تھا۔ امریکہ جنوبی ویتنام میں جنگ لڑرہا تھا جو ظاہراً کمیونسٹوں کی پیش قدمی کو واپس پیچھے ڈھکیلنے کیلئے تھی جن کا شمالی ویتنام پر کنٹرول تھا، نیز جمہوریت کو بچانا بھی ظاہری مقصد تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے مابعد حالات میں ’فراخدل جمہوریتوں‘ کا دفاع کرنے اور ان کے تحفظ کے نظریہ کو عوامی تائید وحمایت حاصل تھی۔ سب سے زیادہ واضح محاذ جنگ یورپ میں تھا۔ وہاں نام نہاد جمہوری ممالک اور نام نہاد کمیونسٹ ممالک تھے۔ ونسٹن چرچل نے ان کو تقسیم کرنے والے خط کو ’آئرن کرٹین‘ قرار دیا تھا۔
امریکہ نے ایک مسودہ پالیسی تیار کررکھی تھی۔ نوجوانوں کو ڈیفنس فورسیس میں خدمت انجام لازم کیا گیا۔ ویتنام جنگ کے ابتدائی برسوں میں کئی نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیئے۔ جب جنگ طول پکڑنے لگی اور متواتر حکومتوں کی جھوٹ باتوں کی پول کھل گئی، جنگ کیلئے تائید و حمایت پس و پیش میں تبدیل ہوئی، اور پس و پیش کی جگہ شبہ نے لی نیز شبہ سے مخالفت نے سر اُبھارا۔ نوجوانوں بالخصوص اسٹوڈنٹس نے سب سے پہلے احتجاج کی آواز بلند کی۔ انھوں نے سوال کئے کہ کیوں امریکہ میلوں دور کے ویتنام میں جنگ لڑرہا ہے؟ کیوں نوجوان امریکیاں سینکڑوں کی تعداد میں مررہے ہیں؟ سیاسی سسٹم اطمینان بخش جوابات دینے میں ناکام ہوا۔ امریکی کانگریس کے منتخب نمائندگان نے ہوا کا رُخ سمجھنے میں تاخیر کردی۔
ہندوستانی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے کیمپسوں میں جس جوش و خروش کا مظاہرہ ہورہا ہے وہ 1968ء کے واقعات سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔ اسٹوڈنٹس اور نوجوانوں نے تاڑ لیا ہے کہ کچھ تو ’شدید غلط‘ ہے جس طرح ملک میں حکمرانی ہورہی ہے۔ کئی معاملوں میں مشکوک فیصلے دیکھنے میں آرہے ہیں جیسے وائس چانسلروں اور گورنروں کا تقرر۔ امتحانات کے انعقاد میں بدانتظامی ہورہی ہے۔ اسٹوڈنٹس یونین کی سرگرمیوں پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ فیس میں اضافہ کیا جارہا ہے، وغیرہ۔ بعض یونیورسٹی کے نظم و نسق سیاسی طور پر جانبدار ہیں اور مخصوص سیاسی گروپ کے حمایتی اسٹوڈنٹس کو دیگر پر فوقیت دی جارہی ہے اور جھڑپوں کو ہوا دی جارہی ہے جس میں سب سے نمایاں جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے ہنگامے ہیں، جہاں کھلے طور پر اے بی وی پی کی حوصلہ افزائی کی گئی، جو بی جے پی کا اسٹوڈنٹس ونگ ہے۔ احتجاجی آوازوں کو ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ قرار دیا گیا۔ غداری کے کیس اسٹوڈنٹ لیڈروں کے خلاف عائد کئے گئے۔ من مانی گرفتاریاں ہورہی ہیں۔ ترقی اور نوکریوں کی فراہمی کے تعلق شیخی بگھاری جارہی ہے، جس پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں برہم ہیں اور وہ اپنے مستقبل کے تعلق سے فکرمند ہیں۔
یونیورسٹیوں میں نئی ’نارمل‘ صورتحال خوفزدہ کرنے والی ہے، ملک میں ’نارمل‘ حالات بھی عمومی طور پر جابرانہ ہیں۔ ہر دن ریپ، لنچنگ، ٹرولنگ اور استحصال کے ایک سے بڑھ کر ایک ہولناک واقعات پیش آرہے ہیں۔ سیاسی سطح پر اکثریتی غرور و تکبر آشکار ہے کیونکہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ ربط و ضبط قائم رکھنے سے گریزاں ہے اور پارلیمنٹ میں متنازع قانون سازی میں جلدبازی سے کام کررہی ہے۔ مثال کے طور پر دستور ہند کے آرٹیکل 5 اور 11 کا تعلق شہریت سے ہے۔ دستورساز اسمبلی نے ان دفعات پر تین ماہ مباحث کے بعد یہ آرٹیکلس اختیار کئے۔ اس کے برعکس شہریت (ترمیمی) بل 2019ء کو کابینہ نے 8 ڈسمبر 2019ء کو منظور کیا، پارلیمنٹ کے دونوں ایوان نے اسے منظوری دی اور قانون کی حیثیت سے اس کا اعلان 11 ڈسمبر کو ہوگیا ۔ یہ سب 72 گھنٹوں کے اندرون ہوگیا!
سیاسی پارٹیاں جن میں سے بعض نے غیرمعمولی تغیر سے کام لیا، ان سے کہیں زیادہ اسٹوڈنٹس اور نوجوانوں نے ہندوستان اور دستور کو حقیقی خطرہ کو تاڑا۔ انھوں نے جانا کہ اکثریتی تکبر اور اس کے زیراثر اقدامات مطلق العنان حکمرانی یا آمریت کا موجب بنیں گے۔ اس سے کہیں زیادہ اثر یہ ہوگا کہ ہندوستان منقسم ہوگا اور ہندوستانی کو ہندوستانی کے خلاف لاکھڑا کرے گا۔ بعض ہندوستانی حقوق، مراعات اور مواقع کے معاملوں میں دیگر کے مقابل کمتر ہوجائیں گے۔ یہ ماضی کی طرف تباہ کن واپسی ہوگی اور ہندوستان 70 سال پیچھے چلا جائے گا نیز آزادی کے بعد سے حاصل شدہ فوائد مٹ جائیں گے۔
شہریت (ترمیمی) قانون نے نوجوان نسل کے غیرذمہ دارانہ برتاؤ اور سردمہری کو ختم کردیا ہے۔ پرانی نسل شرمندہ ہے۔ ہزارہا نوجوان لڑکے و لڑکیاں اور مرد و خواتین سڑکوں پر نکل آئے ہیں تاکہ احتجاج کریں، ریلی نکالیں، موم بتی کے جلوس نکالیں، قومی پرچم لہرائیں اور دستور کا دیباچہ پڑھیں نیز اس کے ناقابل محسوس مگر پائیدار اثر پر روشنی ڈالیں۔ توقع کے مطابق برسراقتدار طبقے نے بلاسوچے سمجھے غصہ اتارنا شروع کیا، گالی گلوج کی اور تنگ کرنے لگے لیکن حکمران صاف طور پر نروس اور مایوس معلوم ہوتے ہیں۔وزیراعظم نے اپنے وزیر داخلہ کو دعویداری کی اجازت دے رکھی ہے جنھوں نے کہا: ’’ہم سی اے اے سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹیں گے۔‘‘ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ناقابل مزاحمت قوت اور نہ سرکنے والی رکاوٹ ہے۔ کوئی تو یا کچھ تو نرم پڑنا باقی ہے۔ اسی پر ہندوستان کی قسمت اور اس کا مستقبل منحصر ہے۔ یہ نئے سال کی ناخوشگوار شروعات ہے۔