نوجوان چہروں کی شمولیت

   

Ferty9 Clinic

جو بھی مل جائے اس پہ قانع ہو
ہم ہیں مہماں یہاں پہ پل بھر کے
نوجوان چہروں کی شمولیت
حالیہ کچھ عرصہ میں کانگریس کے کئی قائدین نے پارٹی کو خیرباد کہتے ہوئے دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ انحراف کرنے والے قائدین میں بیشتر نے بی جے پی میں پناہ لی ہے اور اب وہ اپنی ہی پارٹی کے نظریات سے اختلاف کرتے ہوئے بی جے پی میں سرگرم ہوگئے ہیں۔ کئی مواقع پر اہم قائدین نے بھی پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ہے تاہم اب پارٹی میں دو نوجوان چہروں کی شمولیت کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ سی پی آئی کے نوجوان لیڈر اور ملک بھر میں مقبول عام چہرہ سمجھے جانے والے کنہیا کمار اور گجرات کے دلت رکن اسمبلی جگنیش میوانی کی کانگریس میں شمولیت کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ ان دونوں کی شمولیت کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل کہی جاسکتی ہے ۔ کانگریس پارٹی میں اب مقبول چہروں کا فقدان ہوتاجا رہا ہے ۔ جو نوجوان قائدین پہلے سے موجود تھے ان میں سچن پائلٹ ‘ جیوتر آدتیہ سندھیا اور جتن پرساد کو اہمیت حاصل تھی ۔ جیوتر آدتیہ سندھیا نے کانگریس کو نہ صرف خیرباد کہہ دیا بلکہ انہوں نے مدھیہ پردیش میں اقتدار کا تختہ ہی پلٹ دیا اور بی جے پی کو اقتدار پر قبضہ کا موقع فراہم کرتے ہوئے خود مرکزی وزارت بھی حاصل کرلی ۔ اترپردیش میں جتن پرساد جو اعلی ذات والوں کیلئے اہم چہرہ سمجھے جاتے تھے وہ بھی کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ صرف ایک سچن پائلٹ ہیں جو پارٹی میں رہ گئے ہیں۔ حالانکہ ایک موقع پر ان کے بھی انحراف کی باتیں ہو رہی تھیں لیکن انہیں کسی طرح پارٹی میں برقرار رکھا گیا ہے ۔ ایسے میں نوجوان چہروں کی کانگریس میں قلت ہوگئی تھی ۔ اب اگر کنہیا کمار اور جگنیش میوانی پارٹی میں شامل ہوتے ہیں تو اس سے پارٹی کو کچھ نہ کچھ مدد ضرور مل سکتی ہے ۔ عوامی سطح پر کانگریس کی نمائندگی میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ بھلے ہی ان کی شمولیت سے پارٹی کو ووٹ ملیں یا نہ ملیں لیکن عوامی حلقوں میں اور ٹی وی مباحث میں پارٹی کی موثر ڈھنگ سے نمائندگی ہوسکتی ہے ۔ خاص طور پر کنہیا کمار گودی میڈیا اور بی جے پی کے ترجمان قائدین کے ٹی وی مباحث میں جواب دینے میں مہارت رکھتے ہیں اور لوگ انہیںپسند بھی کرتے ہیں۔
ان دونوں کی پارٹی میں شمولیت سے دلتوں کو بھی راغب کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ جگنیش میوانی گجرات میں آزاد رکن اسمبلی ہیں اور دلت طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ریاست میں بی جے پی حکومت کو نشانہ بنانے والے قائدین میں وہ آگے رہتے ہیں۔ خود کنہیا کمار کا تعلق بھی پسماندہ طبقات سے ہے ۔ انہیں حکومت کے خلاف سرگرمیوں کے نتیجہ میں مقدمات میں پھانسا گیا تھا ۔ جے این یو طلبا تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے ان پر قوم مخالف سرگرمیوں کے الزام میں بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن ابھی تک عدالت میں چارج شیٹ پیش نہیں کی جاسکی ہے ۔ کنہیا کمار سے سنگھ پریوار زیادہ بغض رکھتا ہے اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا سربراہ بھی کہا جاتا ہے ۔ حالانکہ کنہیا کے خلاف اب تک جو کچھ بھی الزامات عائد کئے گئے ہیں ان میں سے ایک بھی مقدمہ میں انہیں سزا نہیں ہوسکی ہے ۔ تمام صرف الزامات ہیں اور عدالتوں میں مقدمات زیر دوران ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی اور اس کے قائدین اور سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں انہیں نشانہ بنانا اپنا فرض اولین سمجھتی ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں اور اس کے اقدامات میں نقائص اور کارپوریٹس پر حکومت کی مہربانیوں کو نشانہ بنانے والے کنہیا کمار پارٹی کیلئے ایک اچھے ترجمان بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ وہ عوام میں معروف چہرہ ہیں اور کم از کم نوجوان ان کی بات سنتے ضرور ہیں۔ اگر ان کے خیال سے اتفاق نہ بھی کیا جائے تب بھی ان کے مباحث اور دلائل کی سماعت ضرور کی جاتی ہے ۔
گجرات میں جگنیش میوانی کی شمولیت بھی پارٹی کو استحکام بخش سکتی ہے ۔ ایک تو وہ نوجوان ہیں۔ پہلے ہی سے ہاردک پٹیل نوجوان لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ اگر جگنیش میوانی کا بھی انہیں ساتھ مل جاتا ہے تو پارٹی کی ریاستی یونٹ کو استحکام مل سکتا ہے ۔ جگنیش دلت بھی ہیں اور اب جبکہ گجرات میں بھی اسمبلی انتخابات کیلئے وقت قریب آتا جا رہا ہے تو جگنیش کی شمولیت سے دلتوں کو مطمئن کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ ہاردک پٹیل ریاست میں اکثریت رکھنے والی پٹیل برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ پٹیل اور دلتوں کا امتزاج کانگریس کیلئے نفع بخش ثابت ہوسکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان قائدین کو ہر سطح پر مواقع فراہم کئے جائیں ۔ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے اور انہیں پروان چڑھایا جائے ۔ بصورت دیگر مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے ۔
آسام میں انسانیت سوز واقعہ
گذشتہ دنوں آسام میں ایک انتہائی شرمناک اور انسانیت سوز واقعہ پیش آیا ۔ ایک فرد کو جو اپنے گھر کو انہدام سے بچانے کی جدوجہد کر رہا تھا گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جبکہ وہ صرف لاٹھی تھامے ہوئے تھا اور اسے پولیس گھیرے میں لے کر حراست میں بھی لے سکتی ہے ۔ بات یہی پر نہیں تھمی بلکہ اسے گولی ماردینے اور وہ نہتہ زمین پر گرجانے کے بعد دوسرے پولیس اہلکاروں نے اس پر لاٹھیاں برسائیں اور ایک انسان نما فوٹو گرافر حیوان نے حیوانیت کی ساری حدوں کو پار کرتے ہوئے اس شخص کی نعش کے ساتھ مار پیٹ کی ۔ اپنے پاگل اور جنونی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے زور اور طاقت کے ساتھ اس پر کود پڑا اور نعش کی بے حرمتی کی گئی ۔ یہ واقعہ دل دہلادینے والا اور انسانیت کو شرمسار کردینے والا ہے ۔ متوفی کا گناہ کچھ بھی رہا ہولیکن اس کے فوت ہوجانے کے بعد اس طرح لاٹھیاں برسانا نہ پولیس کی دلیری ہے اور نہ ہی اس کی پیشہ ورانہ مہارت ہے ۔ یہ صرف پست ذہنیت اور نچلی سوچ کی مثال ہے ۔ اسی طرح کسی سرکاری محکمہ میں برسر کار ایک فوٹو گرافر نے ضرورت سے زیادہ چاپلوسی اور حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نعش کو مارپیٹ کی اور اس پر کود پڑا ۔ ایسے واقعات ہندوستانی تہذیب اور روایات کے یکسر مغائر ہیں۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کئے جانے چاہئیں ۔ان کو سزائیں دی جانی چاہئیں ۔ انہیں بھی سر عام پھانسی پر لٹکانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی انسانیت سوز اور حیوانیت والی حرکتوں کا ازالہ ہوسکے ۔ اس واقعہ نے احساس و جذبات رکھنے والے ہر ذی روح کو شرمندہ کردیا ہے ۔