دل میں سو زخم ہیں تو کیا غم ہے
درد اس کا بھلا بھلا سا لگے
نوٹ بندی ‘ پایا کچھ نہیں ‘ کھویا بہت
ملک میں اچانک ہی کی گئی نوٹ بندی کے تین سال پورے ہوچکے ہیں۔8 نومبر 2016 کو اچانک ہی وزیر اعظم نریندر مودی رات 8 بجے ٹی وی پر نمودار ہوئے اور انہوں نے 500 اور 1000 روپئے کے نوٹ بند کردینے کا اعلان کیا ۔ سارا ملک سکتہ میں آگیا تھا ۔ تاہم حکومت اپنے فیصلے کی تفصیل تک بروقت ملک کے عوام کو بتانے سے قاصر رہی تھی ۔ جس وقت نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا تھا پل پل قوانین میں تبدیلی کی گئی تھی ۔ فیصلے بدلے گئے تھے ۔ صبح کی صورتحال شام کو اور شام کی صورتحال صبح کو بدل گئی تھی ۔ عوام بے چین تھا ۔ قطاروں میں کھڑے ہوئے اس بات پر فکرمند تھے کہ ان کی محنت کی کمائی سے کہیں وہ ہی محروم نہ ہوجائیں ۔ وزیر اعظم بھی ہر دوسرے دن کوئی اعلان کر رہے تھے ۔ حکومت کے دوسرے ذمہ داروں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ کب کیا ہونے والا ہے ۔ ریزرو بینک کہیں مفلوج ہوکر رہ گیا تھا ۔ عوام کی مشکلات اتنی ہوگئی تھیںکہ قطاروں میں کھڑے تقریبا 100 افراد مختلف مقامات پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اندرون 50 دن اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو انہیں پھانسی دی جانی چاہئے لیکن نوٹ بندی کے بعد تین سال کا عرصہ گذر گیا ہے اور جو پریشانیاں اس وقت شروع ہوئی تھیں ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہیں۔ ملک کی معیشت تباہ ہوکر رہ گئی ہے ۔ صنعتیں اور کارخانے بند ہونے پر آگئے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ روزگار اور ملازمتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ تجارتی ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ صنعتی پیداوار میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ کاروبار میں مندی پیدا ہوگئی ہے ۔ ہندوستانی روپئے کی قدر میں گراوٹ آگئی ہے ۔ مہنگائی نے الگ سے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ دو دھ ہو یا ادویات ہوں ان سب کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ دال چاول کے بھاو عوام کی جیبوں پر بوجھ عائد کر رہے ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں غیر محسوس طریقہ سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ بحیثیت مجموعی نوٹ بندی کے منفی اثرات آج تک ساری قوم بھگتنے پر مجبور ہوگئی ہے اور حکومت اس موضوع پر نہ کوئی بیان دینے تیار ہیں اور نہ ہی یہ بتا رہی ہے کہ نوٹ بندی کے فوائد کیا رہے ہیں۔
بحیثیت مجموعی اگر ہم جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نوٹ بندی سے سوائے نقصان کے کچھ ہوا نہیں ہے ۔ نوٹ بندی کے نتیجہ میں معیشت تباہ ہوگئی ہے ۔ آج کئی شعبہ جات ایسے ہیں جو صرف حکومت کے پیکج پر کام کرپا رہے ہیں اور اپنے طور پر ان میں کام کاج جاری رکھنے کی گنجائش بھی باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ حکومت نے دعوی کیا تھا کہ نوٹ بندی کا مقصد جعلی نوٹوں کے چلن کو بند کرنا ہے ۔ کالے دھن پر قابو پانا ہے اور دہشت گردی کو روکنا ہے ۔ اگر ہم تین سال بعد جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ نہ تو جعلی نوٹوں کا چلن بند ہوا ہے اور نہ کالے دھن کا پتہ چلایا جاسکا ہے ۔ جعلی نوٹوں کے چلن کے تعلق سے خود سرکاری طور پر یہ اعتراف کیا جانے لگا ہے کہ جعلی نوٹوں کے چلن میں نوٹ بندی کے بعد سے مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ ملک کے کئی شہروں میں جعلی نوٹوں کا پتہ چلا ہے اور کئی لوگ گرفتار بھی کئے گئے ہیں۔ جہاں تک کالے دھن کی بات ہے تو یہ بی جے پی حکومت کا انتخابی وعدہ بھی تھا تاہم ابھی تک کوئی کالا دھن واپس نہیں آیا ہے ۔ حکومت بیرونی ممالک سے کالا دھن لانے کی بات تو شائد فراموش ہی کرچکی ہے ۔ جن لوگوں اور گوشوں نے کالے دھن کی واپسی کے مسئلہ پر حکومت کی مدح سرائی میں انتہاء کردی تھی وہ بھی شائد اس وعدہ کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ وہ نہ عوام میں اس پر اظہار خیال کر رہے ہیں اور نہ ہی حکومت سے کوئی سوال کرنے کی ہمت دکھا رہے ہیں۔
حکومت نے دہشت گردی پر بھی نوٹ بندی کے ذریعہ قابو پانے کی بات کہی تھی لیکن خود سرکاری اعداد و شمار کے ذریعہ پتہ چلتا ہے کہ نوٹ بندی سے معیشت تو بری طرح متاثر ہوئی ہے لیکن دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے ۔ بحیثیت مجموعی جو نشانے نوٹ بندی کے ذریعہ مقرر کئے گئے تھے ان میں سے کوئی ایک نشانہ بھی پورا نہیں ہوسکا ہے ۔ حکومت نے 1000 روپئے کی نوٹ کو کالے دھن کی وجہ قرار دیا تھا لیکن قابو پانے کے نام پر 2000 کی نوٹ جاری کردی تھی ۔ اس سے خود حکومت کے قول و فعل میں تضاد واضح طور پر دکھائی دیا ہے ۔ نوٹ بندی کے تین سال بعد کم از کم اب وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ نوٹ بندی سے ملک نے پایا کچھ نہیں ہے اور کھویا بہت کچھ ہے ۔