’’نیا دور‘‘ کا مجتبیٰ حسین نمبر

   

سید امتیاز الدین
لکھنو جو آج بھی ریاست اترپردیش کا صدر مقام ہے ، ایک زمانے میں اردو کا زبردست قلعہ تھا ، سچ پوچھئے تو اردو زبان کے ساتھ ہی جن دو شہروں کے نام ذہن میں آتے تھے اور جہاں کے رہنے والے اہل زبان کہلاتے تھے، ان میں سے ایک لکھنو تھا اور دوسرا دہلی ۔ اب وہ دور ختم ہوگیا ۔ کسی نے مجھے بتایا کہ اب لکھنو میں قبروں کے کتبے بھی اردو رسم الخط میں کم دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ مشاعروں میں نوجوان شعراء اپنا کلام بھی اردو رسم الخط میں لکھ کر نہیں لاتے۔ ایسے میں ہم کو ایک نادر چیز ہاتھ لگی۔ یہ نادر اور خوبصورت مرقع ماہنامہ نیا دور کا ستمبر 2018 ء کا شمارہ ہے۔ ماہنامہ نیا دور محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ اترپردیش کا مجتبیٰ حسین نمبر ہے ۔ کیا کاغذ ، کیا طباعت ، کیا کتابت اور کیا مشمولات ۔ صوری اور معنوی حسن کا ایسا امتزاج بہت کم نظر آتا ہے ۔ ویسے تو مجتبیٰ حسین کی پہچان برصغیر کے منفرد طنز و مزاح نگار کی ہے لیکن رشک اس بات پر ہوتا ہے کہ ایسا عمدہ رسالہ لکھنو سے شائع ہوا جبکہ یہ اعزاز حیدرآباد کو حاصل ہونا چاہئے تھا ۔ رسالے کے سرورق پر مجتبیٰ حسین صاحب کی بارہ تصاویر بطور ٹائٹل پیش کی گئی ہیں جو ان کی عمر کے مختلف ادوار کی نشاندہی کرتی ہیں۔
نیا دور کے ایڈیٹر سہیل وحید صاحب اور تزئین کار وقار حسین صاحب اور نیا دور کا جملہ اسٹاف اتنے خوبصورت رسالے کی اشاعت پر ہماری دلی مبارکباد کا مستحق ہے۔ اداریے سے یہ جان کر دکھ ہوا کہ بحیثیت مدیر یہ سہیل وحید کا آخری شمارہ ہے ۔ سہیل وحید ایک مشاق اور مخلص صحافی لگتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ انہوں نے اس رسالے کے ذریعہ اپنے بعد آنے والے صحافیوں کیلئے ایک خوشگوار روایت چھوری ہے جو ایک چیلنج بھی ہے اور ایک سنگِ میل بھی ۔ رسالے کی ابتداء میں سہیل وحید کا طویل اداریہ شامل ہے جو بیک وقت مجتبیٰ حسین نمبر کی غرض و غایت بھی ہے ، مجتبیٰ حسین کا انٹرویو بھی ہے ، سہیل وحید کا سفرنامہ حیدرآباد بھی ہے ، حیدرآبادی اور لکھنوی پکوان کا تقابلی جائزہ بھی ہے۔ ہم حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے لیکن سہیل وحید صاحب نے حیدرآباد کی ایسی ایسی ہوٹلوں میں کھانا کھایا ہے اور اتنے مقامات دیکھ ڈالے ہیں کہ اگر ہمیں اپنے شہر کے بارے میں کچھ جاننا ہو تو شائد ہمیں سہیل وحید صاحب کی مدد لینی ہوگی ۔
نیا دور کے اس خصوصی شمارے کی اہم ترین خوبی اس کی پلاننگ یا منصوبہ بندی ہے ۔ ابتداء میں مجتبیٰ حسین کی چھ منتخب اور نمائندہ تحریریں شامل ہیں۔ مارک ٹوین مجتبیٰ حسین کا نہانیت پسندیدہ ادیب ہے ۔ اس کی ایک تحریری ترجمہ کی شکل میں شامل ہے۔
مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کا جائزہ شمیم حنفی نے بڑی خوبی سے لیا ہے ۔ شمیم صاحب نے بجا طور پر کہا ہے کہ مجتبیٰ حسین کے خاکے فوٹو گرافی کی طرح دو اور دو چار کی طرح نہیں ہیں بلکہ مصوری کی طرح جذبات کی عکاسی نظر آتے ہیں۔
آغا روحی صاحب نے مجتبیٰ حسین کے سفرناموں کا جائزہ لیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ مجتبیٰ حسین کی تہہ دار شخصیت کو پوری طرح انہوں نے ان کے سفرناموں میں پالیا ہے ۔
’’مجتبیٰ حسین کی بے مثال فنکاری ‘‘ مجتبیٰ کے فن کا نہایت مبسوط جائزہ ہے جو فیاض رفعت نے بڑی محنت سے لکھا ہے۔
پروفیسر بیگ احساس نے ذاتی معلومات کی بنیاد پر بڑا خوبصورت خاکہ لکھا ہے ۔ خود انہوں نے اپنی دلی خواہش لکھی ہے کہ مجتبیٰ حسین اُن کا خاکہ لکھیں۔ (ویسے مجتبیٰ حسین نے بیگ احساس کے ریٹائرمنٹ کے موقع پر اُن کا خاکہ لکھا ہے)
مجتبیٰ حسین پر صبیحہ انور ، معصوم مرادآبادی ، گل رعنا ، محسن خاں، رفیق احمد ، صابر علی سیوانی جیسے نسبتاً نوجوان ادیبوں کے مضامین بھی بہت معلوماتی ہیں اور مختلف زاویوں سے مجتبیٰ حسین کے فن کا جائزہ لیتے ہیں ۔ ان کے علاوہ فکر تونسوی ، گوپی چند نارنگ ، شہریار اور کئی مشہور ادیبوں کے مضامین اور خطوط کے اقتباسات بھی اس شمارے میں شامل ہیں جو اس نمبر کی توقیر میں اضافہ ہیں۔
بہرحال نیا دور کا یہ شمارہ ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یوں تو مجتبیٰ حسین پر کئی لوگ پی ایچ ڈی کرچکے ہیں لیکن یہ رسالہ بھی ریسرچ اسکالرس کے بہت کام آئے گا۔ نیا دور کا یہ شمارہ ہر ادب دوست کی لائبریری میں ہونا چاہئے ۔ اس رسالے کا زر سالانہ 165 روپئے اور ترسیل زر کا پتہ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ پارک روڈ لکھنو 226001 ، یو پی ہے۔