بیمار بچوں کے ساتھ رہنے والے غذائی پیاکٹس چھیننے پر مجبور، جی ایچ ایم سی کے اناپورنا سنٹرس سے لاعلم
حیدرآباد ۔26 ستمبر (سیاست نیوز) بچوں کے علاج و معالجہ کیلئے مشہور شہر کے نیلوفر ہاسپٹل کے باہر لوگ غذائی پیاکٹس حاصل کرنے کیلئے مشکل حالات سے دوچار ہورہے ہیں اور اس کیلئے ہجوم ہونے سے انہیں مشکل پیش آرہی ہے اور وہ غذائی پیاکٹس چھیننے پر مجبور ہیں۔ علاج کیلئے اس دواخانہ میں شریک کئے جانے والے بچہ کے ساتھ کم از کم دو لوگ، اکثر والدین رہتے ہیں اور بچہ کی صحت پر بھرپور توجہ کے ساتھ وہ اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہر وقت جب غذائی پیاکٹس تقسیم کرنے والی گاڑی اس دواخانہ کی پاس پہنچتی ہے تو وہ غذائی پیاکٹس حاصل کرنے کیلئے اس جانب جاتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں چونکہ اس گاڑی کے پاس کافی ہجوم ہوتا ہے اس لئے کبھی انہیں غذائی پیاکٹس ملتے ہیں اور کبھی یہ ان کے ہاتھ نہیں آتے جس پر انہیں پھر اس طرح کی دوسری گاڑی یا والینٹرس کے گروپ کا غذائی پیاکٹس کے ساتھ آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ نیلوفر ہاسپٹل میں جو زیادہ تر معاشی طور پر کمزور طبقات کے بچوں کے علاج و معالجہ کی ضرورت کو پورا کرتاہے، تقریباً 1400 بیڈس ہیں اور اس دواخانہ میں موسمی امراض، تنفس کے امراض اور دیگر بیماریوں میں مبتلا بچوں کی بڑی تعداد شریک دواخانہ ہے ان میں کئی پڑوسی ریاستوں سے بھی یہاں آ کر شریک دواخانہ ہوئے ہیں۔ دواخانہ میں شریک بچوں کے ساتھ ان کا خیال رکھنے کیلئے تین تا چار ہزار لوگ رہتے ہیں چونکہ وہ غریب ہوتے ہیں اور ان میں کئی لوگ دوردراز مقامات سے حیدرآباد آتے ہیں اس لئے وہ پیسے خرچ کرنے سے پہلے دو مرتبہ سوچتے ہیں۔ دو تا تین لوگوں کیلئے ایک دن تین وقت کا کھانا خریدنے کیلئے انہیں 300 روپئے سے زیادہ رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ اگر ان کا بچہ دواخانہ میں ہفتوں یا مہینوں شریک رہے تو پھر انہیں غذائی اشیاء خریدنے کیلئے رقم خرچ کرنا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ دواخانہ کی جانب سے صرف مریضوں ہی کو غذا فراہم کی جاتی ہے اس لئے رضاکارانہ تنظیمیں یا افراد صبح اور دوپہر میں یہاں غذائی پیاکٹس تقسیم کرتے ہیں۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی) کی جانب سے اناپورنا سنٹرس کے ذریعہ دوپہر تک 5 روپئے میں کھانا فراہم کیا جاتا ہے لیکن دور مقامات اور اضلاع سے یہاں آنے والے لوگ اس اسکیم سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔ انہیں اس کے بارے میں معلوم نہیں رہتا ہے اور انہیں یہ سنٹرس کہاں ہیں معلوم نہیں رہتا ہے۔ ان حالات میں وہ غذا تقسیم کرنے والی گاڑیوں پر انحصار کرتے ہیں اور اس کی اتنی مانگ ہوتی ہیکہ 50 تا 100 پیاکٹس دس منٹ سے کم وقت میں چھین لئے جاتے ہیں۔ شادنگر کا ایک نوجوان کسان، اے رمیش فوڈ پیاکٹس حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے کئی لوگوں میں ایک تھا۔ اس کے بیٹے کو اس کے کندھوں پر اٹھائے اور بیٹی کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس نے ایک کار کی جانب تیزی سے بڑھا جو دوپہر میں غذائی پیاکٹس تقسیم کرنے کیلئے یہاں پہنچی تھی لیکن اس کے وہاں پہنچنے تک غذا کے پیاکٹس ختم ہوگئے تھے۔ رمیش اس کی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ اس دواخانہ میں ہے اس کی آٹھ سالہ بیٹی کا یہاں تین دن سے ڈینگو کا علاج ہورہا ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ جی ایچ ایم سی فوڈ سنٹر کہاں ہے ہم یہاں غذائی پیاکٹس کے ساتھ گاڑیوں کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ غذائی پیاکٹس کے حصول کیلئے یہ بھیڑ گذشتہ ہفتہ سے نیلوفر ہاسپٹل کے باہر ایک عام بات ہوگئی ہے۔ بچوں کے ساتھ دواخانہ میں رہنے والے دوسرے لوگوں نے کہا کہ چونکہ لوگ دوردراز دیہاتوں سے اس دواخانہ کو آتے ہیں اور انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اناپورنا سنٹرس کہاں ہیں۔ ہاسپٹل کے اطراف اناپورنا سنٹرس اور ان کے اوقات کے بارے میں تلگو، اردو، انگلش میں سائن بورڈس لگانے سے کافی مدد ملے گی۔ نیلوفر ہاسپٹل کے قریب جی ایچ ایم سی کے اناپورنا سنٹر کے ایک ورکر نے کہا کہ وہ 10:30 بجے دن سنٹر کو کھولتے ہیں اور اسے 2 بجے دن تک کھلا رکھتے ہیں۔