نیوزی لینڈ میں غم و اندوہ کی لہر ، شہیدوں کی تکفین وتدفین کے انتظامات

,

   

مسجد النور کے قریب یادگار پر گلدستے ، دہشت گرد پر قتل کا مقدمہ ، بندوق قانون تبدیل کرنے وزیراعظم جیسینڈا کا عہد
کرائسٹ چرچ۔ 16 مارچ ۔(سید مجیب ) کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر نماز جمعہ کے دوران وحشیانہ دہشت گرد حملے میں ملوث دائیں بازو کے جنونی حملہ آور کو آج نیوزی لینڈ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں متعدد الزامات کے منجملہ پہلے الزام پر سماعت کاآغاز ہوا ۔ اس دوران گزشتہ روز کے وحشیانہ حملے میں 49مصلیان کی شہادتوں پر ناقابل بیان صدمہ سے دوچار مسلم برادری نے شہیدوں کی تدفین کی ۔ جنونی حملہ آور آسٹریلیائی نژاد 28 سالہ برنٹن لارنٹ کو تیری کاسنی لباس پہنا کر عدالت میں پیش کیا گیا اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ جج نے مصلیان کے قتل عام کے مقدمہ میں پہلا الزام پڑھ کر سناتے ہوئے مقدمہ کی کارروائی شروع کی جس کے ثابت ہونے کی صورت میں ملزم کو اس حد تک سزا ہوسکتی ہے کہ اس کو تادم آخر جیل میں رہنا ہوگا ۔ ملزم برنٹن لارینٹ کو سخت ترین پولیس پہرہ میں لایا گیا اس وقت وہ بالکل پرسکون اور مطمئن نظر آرہا تھا اور ’’او کے ‘‘ کا اشارہ دیا جو دنیا بھر میں سفید فام انتہاء پسند گروپوں کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ اس نے ضمانت کی کوئی درخواست بھی نہیں کی چنانچہ 5 اپریل کو مقرر کردہ آئندہ سماعت تک اُس کو تحویل میں دیدیا گیا۔ کرائسٹ چرچ کی اس عدالت کے باہر کی صورتحال انتہائی کربناک تھی جہاں شہریوں بالخصوص مسلمانوں پر جیسے غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا اور وہ ناقابل برداشت صدمے سے اُبھرنے کی کوشش کے ساتھ مہلوکین کی تجہیز و تکفین کے انتظامات پر توجہ مرکوز کررہے تھے ۔ مسلمانوں کے خلاف کسی مغربی ملک میں اب تک کا یہ سب سے بڑا دہشت گرد حملہ تھا ۔

اس شہر کے قدیم قبرستان میں انتہائی دل خراش مناظر دیکھے گئے جہاں شہیدوں کی تدفین کے لئے قبریں کھودی جارہی تھیں۔ حالانکہ شہیدوں کی نعشوں کو پولیس تاحال ان کے ورثاء کے حوالہ نہیں کرسکی ہے ۔ دوسری طرف مختلف دواخانوں میں ڈاکٹرس اور نیم طبی عملے کے ارکان ، زخمیوں کو علاج و معالجہ کی سہولتیں فراہم کرنے کے عمل میں شب و روز مصروف رہے ۔ مسجد النور کے علاقہ کی پولیس ناکہ بندی برقرار ہے جہاں بلاامتیاز مذہب نیوزی لینڈ کے غمزدہ شہری گلدستے پیش کرتے ہوئے مرحومین کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں ۔ ان کی تعریف توصیف کے ساتھ دعائیہ کلمات پر مشتمل تحریریں رکھی جارہی ہیں۔ لین ووڈ مسجد کے ایک امام ابراھیم عبدالحلیم نے جو حملہ کے وقت امامت کررہے تھے کہا کہ اس وحشیانہ قتل عام کے باوجود مقامی مسلم برادری کا عزم و حوصلہ متزلزل نہیں ہوا ہے ۔ ہم اب بھی اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے مختلف مقامات پر ہمہ مذہبی دعائیہ اجتماعات منعقد کرتے ہوئے مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا ۔ وزیراعظم جیسنڈرا آرڈرن سیاہ حجاب پہن کر کرائسٹ چرچ پہونچیں اور مقامی مسلمانوں سے ملاقات کی ۔ انھوں نے کہاکہ حملہ آور کے پاس لائیسنس یافتہ بندوق تھی ۔ یہ لائیسنس نومبر 2017 ء میں جاری کیا گیاتھا ۔ آرڈرن نے کہاکہ بعض بندوقوں میں تبدیلی کرتے ہوئے انھیں مزید مہلک بنایا جارہا ہے ۔ انھوں نے کہاکہ ’’میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ اب بندوقوں کے قانون میں تبدیلی کی جائے گی ‘‘ ۔ باور کیا جاتا ہے کہ مشتبہ حملہ آور جو دائیں بازو کا انتہاپسند تھا دو سال سے اس حملے کی سازش میں مصروف تھا اور ایک منشور بھی مرتب کیا تھا ۔