نیٹ کی مخالفت کیوں ؟

   

پی چدمبرم
دستور اور ریاستوں کے درمیان ایک اٹوٹ بندھن یا تعلق ہے جو نہ صرف عوام بلکہ ریاستوں کے مفادات کا بھی تحفظ کرتا ہے۔ دستور کا جو مرکز یا وسطی ستون ہے، وہ تین فہرستوں پر مشتمل ہے۔ ایک یونین لسٹ، دوسری اسٹیٹ لسٹ اور تیسری ساتویں شیڈول کی لسٹ
Concurrent List
، فہرست دوم (اسٹیٹ لسٹ) اندراج 11 حقیقی طور پر مدون کردہ پڑھا جائے۔ تعلیم بشمول جامعات اس کا دارو مدار اندراجات کی دفعات لسٹ 1 کی 63، 64 اور 65 اور لسٹ 11
(Concurrent List)
پر ہے۔
لیبر کی ووکیشنل اور ٹیکنیکل (فنی) تربیت
ذیل میں ایک
Sledghammer
اندراجات 63 اور 66 سے بحیثیت مجموعی کسی بھی طرح کوئی مسئلہ درپیش نہیں کیونکہ وہ چند نامور اداروں سے متعلق ہیں۔ مثال کے طور پر سائنٹفک اور ٹیکنیکل ایجوکیشن (فنی تعلیم) کے اداروں کو مرکزی حکومت کی جانب سے مالیہ فراہم کیا گیا ہے، تربیتی ادارے اور ان کے معیارات و پیمانوں کو مقرر کیا جاتا۔ تخلیقی تشریح نے اندراجات اور اس اصول کے معاملہ میں نہ صرف سمجھوتہ کروایا جس کے تحت تعلیم ریاست کی فہرست کا موضوع ہے اور اس اصول کو برقرار رکھا گیا۔ ہنگامی طور پر تعلیمی اداروں کو خوداعتمادی کی طرف مائل کرنے اور انہیں اس جانب آمادہ کرنے کی خاطر پارلیمنٹ نے اسٹیٹ لسٹ کے اندراج 11 کیلئے مضبوط قدم اٹھایااور اندراج مکمل طور پر حذف کردی گئی جبکہ
Concurrent List
کو ازسرنو تحریر کیا گیا جو اس طرح ہے۔ تعلیم بشمول فنی تعلیم، طبی تعلیم اور جامعات، فہرست 1 کے اندراجات 63، 64، 65 اور 66 کی شرائط سے مشروط۔ لیبر کی ووکیشنل اور تیکنیکی تربیت ۔پارلیمنٹ نے جو مضبوط اقدام کیا یا اس معاملہ میں اپنے سخت اقدامات کا جو ہتھوڑا استعمال کیا، اس سے وفاقیت، ریاستوں، حقوق اور سماجی انصاف کے نظریات کو ایک دھکہ لگا۔ ایمرجنسی مخالف جہد کار یا الفاظ دیگر ایمرجنسی کے مخالف جنگجوؤں جنہوں نے 44 ویں دستوری ترمیم منظور کی (42 ویں ترمیم) میں پائے جانے والے نقائص کو دور کرنے کی خاطر) یہ نہیں سوچا کہ تعلیم سے متعلق حقیقی اندراجات کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
ریاستی حقوق کو تسلیم کرنا : ریاستوں کے حقوق کا کیس کیا یہ ہے:
جہاں تک ریاستی حکومت کی جانب سے قائم کردہ میڈیکل کالجس کا سوال ہے، انہیں ریاست کے عوام کی رقم استعمال کرتے ہوئے قائم کیا گیا اور طلبہ کو انگریزی میں طب کی تعلیم دی گئی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ریاست کی سرکاری زبان میں طب کی تعلیم دی گئی، طبی تعلیم میں گریجویشن کی تکمیل کرنے والے ڈاکٹروں سے عوام نے جیسی توقع رکھی کہ وہ عوام کیلئے مسیحا ثابت ہوں گے۔ خاص طور پر دیہی عوام کی وہ بہتر انداز میں خدمت کریں گے کیونکہ دیہاتوں میں نگہداشت صحت کی سہولتیں ابتر تھی ؍ ہے۔ اپنی سرکاری زبان میں طبی تعلیم حاصل کرنے والوں سے عوام کی اکثریت نے یہی توقع رکھی کہ وہ اپنی علاقائی یا مقامی زبان میں مریضوں سے بات چیت کریں گے۔ ان کی اپنی زبان میں ان مریضوں کی کونسلنگ کریں گے اور ادویات لکھ کر دیں گے۔

ریاستی حکومت کے قواعد نے سماجی انصاف کے مسئلوں کو بھی حل کیا۔ ان قواعد نے میڈیسن میں دیہی طلبہ کے داخلوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ان طلبہ کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جن کا غریب خاندانوں سے تعلق تھا اور جنہوں نے سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ان میں محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور ایسے طلبہ شامل تھے جو اپنے خاندانوں میں تعلیم کی اس سطح پر پہنچنے والے پہلے فرد تھے اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ ریاستوں میں کسی نے بھی اس طرح کے پائے جانے والے نظام کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کی کم از کم ٹاملناڈو یا مہاراشٹرا میں۔ جہاں تک مجھے علم ہے جنوبی ہند کی ریاستوں میں کسی نے بھی اس نظام کی شکایت نہیں کی۔ ہاں یقینا ایسے مسائل ضرور تھے جن کو حل کرنے کی ضرورت تھی ؍ ہے۔ مثال کے طور پر کیاپٹیشن فیس، حد سے زیادہ فیس، طبی آلات کا ناقص معیار، نامناسب اسپتالیں، نامناسب و غیرموزوں لیبارٹریز، کتب خانے، ہاسٹل اور کھیل کے میدان کی سہولتیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ مسائل ریاستی اور مرکزی اداروں کے تحت کام کرنے والے میڈیکل کالجس کو بھی درپیش ہیں جس کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں ہم اب ریاست کی جانب سے طلبہ کے داخلوں کو باقاعدہ بنائے گئے میڈیکل کالجوں یا بعض مرکزی اداروں کے تحت چلائے جانے والے کالجس میں بھی اس قسم کے مسائل کو دیکھ سکتے ہیں۔ قومی اہلیت و داخلہ ٹسٹ اس بنیاد پر کھڑا ہے کہ جب بات اعلیٰ تعلیم کی آتی ہے وہ بھی پیشہ ورانہ اداروں میں تب میرٹ واحد معیار ہونا چاہئے۔ (ماڈرن ڈینٹل کالج بمقابلہ ریاست مدھیہ پردیش مقدمہ میں سپریم کورٹ کے ریمارکس) اور وہ یہ ہے کہ صرف کامن انٹرنسٹ ٹسٹ (مشترکہ داخلہ امتحان) ہی میرٹ پر مبنی داخلوں کو یقینی بنائے گا اور یہ داخلہ بالکلیہ طور پر شفافیت پر مبنی منصفانہ ہوں گے جن میں کسی بھی قسم کے استحصال کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ جہاں تک
NEET
کا سوال ہے، اسے میڈیکل کونسل آف انڈیا کے وضع کردہ ضوابط و قواعد کے ذریعہ چپکے سے لایا گیا اور اب اسے انڈین میڈیکل کونسل ایکٹ کی دفعہ 10D میں شامل کیا گیا ہے۔
میں میرٹ کے مسئلہ پر بات کو موضوع بحث بنانے کا معاملہ کسی اور دن کیلئے چھوڑتا ہوں۔ آج میں ٹاملناڈو کے میڈیکل کالجس میں داخلوں کے عمل میں
NEET
کے اثرات پر جسٹس اے کے راجن کمیٹی کے پیش کردہ حقائق پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو بتا دوں کہ اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ماقبل نیٹ 2016-17ء میں میڈیکل کالجس میں اسٹیٹ بورڈ کے 98.23 فیصد طلبہ کو داخلے ملے۔ جبکہ مابعد
NEET،
2020-21 میں ایسے طلبہ کی تعداد 59.41 رہی۔ اس طرح ماقبل
NEET،
2016-17ء میں سی بی ایس ای طلبہ کی جنہیں داخلے ملے، ان کی تعداد 0.97 تھی۔ اس کے برعکس مابعد نیٹ 2020-21 ایسے طلبہ کی تعداد 38.84 بتائی گئی۔ ماقبل نیٹ 2016-17ء میں سرکاری میڈیکل کالجس میں دیہی طلبہ کی تعداد 65.17 رہی جبکہ مابعد نیٹ 2020-21ء میں ایسے 49.91 طلبہ کو داخلے حاصل ہوئے۔ اسی طرح خانگی میڈیکل کالجس میں نیٹ سے قبل 2016-17 میں داخلہ پانے والے دیہی طلبہ کی تعداد 68.49 رہی۔ جبکہ مابعد نیٹ 2020-21ء میں 47.14 طلبہ کو خانگی کالجوں میں داخلے حاصل ہوئے۔ جہاں تک ٹامل میڈیم کے طلبہ کا سوال ہے، نیٹ سے قبل داخلہ پانے والے طلبہ کی تعداد 14.88 اور مابعد نیٹ داخلہ پانے والے طلبہ کی تعداد 1.99 رہی۔
اب برائے مہربانی اپنے آپ سے سوالات کیجئے کہ ریاستی حکومتوں کو اخر کیوں ریاست کے ٹیکس دہندگان کی رقم خرچ کرنی چاہئے اور سرکاری میڈیکل کالجس قائم کرنے چاہئے۔

طلبہ کو اسکولوں میں کیوں اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنی چاہئے؟ طلبہ کو اسٹیٹ بورڈ اسکولوں میں کیوں پڑھنا چاہئے؟ اور سب سے بڑھ کر کیوں اسٹیٹ بورڈ ہونا چاہئے؟ اپنے آپ سے آپ کو یہ بھی سوال کرنا چاہئے کہ آیا شہری طلبہ پبلک ہیلتھ سنٹرس اور تعلقہ کی سطح کے اسپتال میں خدمات انجام دیں گے؟ مذکورہ اعداد و شمار خود اس بات کا اظہار کرتے سنائی دیتے ہیں کہ میرٹ کے نظریہ پر نیٹ ایک خطرناک عدم مساوات اور نااانصافی کے دور کا اعلان کررہا ہے۔