یہ سرمئی سے اجالے یہ صبح کا تارا
اسی تلاش میں گم داستان حیات کی ہے
پڑوسی ملک نیپال کی جو صورتحال ہے وہ انتہائی دھماکو کہی جاسکتی ہے ۔ جس طرح سے نوجوانوں نے کرپشن اور سوشیل میڈیا پر امتناع کے خلاف احتجاج کیا اور ملک کی حکومت کا تختہ ہی پلٹ کر رکھ دیا اس کے بعد سے لا قانونیت کا عروج ہے ۔ درجنوں افراد اس تشدد میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ لوٹ مار کی گئی ہے ۔ آتشزنی کے واقعات پیش آئے ہیں۔ سرکاری املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہونچایا گیا ہے ۔ ملک کی پارلیمنٹ ہو یا صدرنیپال یا پھر وزیراعظم نیپال کی رہائشگاہیں ہوں سبھی کو نقصان پہونچایا گیا ہے ۔ توڑ پھوڑ کی گئی ہے ۔ عوامی املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے ۔ سابق وزیر اعظم کے خاندان کو نشانہ بنایا گیا ۔ موجودہ وزراء کو بھی سڑکوں پر دوڑا دوڑا کر پیٹا گیا ہے ۔ غرض یہ کہ نوجوان نسل نے اپنی برہمی کا جو اظہار کیا ہے وہ انتہائی شدید کہا جاسکتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں نیپال کی حکومت کو اور خاص طور پر وزیر اعظم کی حیثیت سے مسٹر کے پی شرما اولی کو استعفی پیش کردینا پڑا ۔ اب نیپال میں نئی عبوری حکومت کے قیام کیلئے اقدامات کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ نیپالی فوج نے سکیوریٹی کی ذمہ داری سنبھال لی ہے نیپالی افواج اور احتجاجیوں کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوگیا ہے ۔ عبوری حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے دو نام لئے جا رہے ہیں۔ ایک نام سابق چیف جسٹس نیپال سشیلا کارکی کا ہے تو دوسرا نام ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے والے کلمن گھیشنگ کا ہے ۔ وہ اقتدار کی اصلاحات کیلئے مہم چلاتے رہے ہیں۔ دونوں میں کسی ایک کو نئی عبوری حکومت کی ذمہ داری سونپے جانے کا امکان ہے ۔ اس معاملے میں بھی نوجوانوں سے مشاورت ہو رہی ہے تاکہ احتجاج اور تشدد کا سلسلہ ختم ہوسکے اور امن و امن اور استحکام کو بحال کیا جاسکے ۔ نیپال ہمیشہ سے ایک پرامن ملک رہا ہے اور وہاں تشدد کے واقعات شاذ و نادر ہی پیش آئے ہیں۔ ایسے میں جو اچانک تشدد پھوٹ پڑا تھا اور حکومت کا تختہ الٹ کر رہ گیا ہے وہ انتہائی خطرناک ہی کہا جاسکتا ہے ۔ 30 افراد اس تشدد میں جان گنوا بیٹھے ہیں اور ایک ہزار افراد ان سارے پرتشدد واقعات میں زخمی بھی ہوئے ہیں ۔
اب جبکہ نیپال میں عبوری حکومت کے قیام کیلئے بات چیت ہو رہی ہے تو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سماج کے تمام طبقات کے جذبات کا احترام کیا جائے ۔ تمام گوشوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے حکومت قائم کی جائے تاکہ تبدیلی کا جو عمل ہے اسے پرسکون انداز میں مکمل کیا جاسکے ۔ سارے ملک میں امن و امان کو بحال کرنے پر اولین ترجیح دی جانی چاہئے ۔ نوجوانوں اور احتجاجیوں کے جو نمائندے ہیں انہیں آگے آتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کیلئے پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جانا چاہئے ۔ انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے ‘ ان سے مذاکرات کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کے موثر انتظامات کئے جانے چاہئیں۔ عام زندگی کو معمول پر لانے کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے ۔ عوام کے ذہنوں سے خوف کو دور کیا جانا چاہئے اور معمولات زندگی کو بحال کرتے ہوئے عوام کیلئے راحت پہونچائی جانی چاہئے ۔
جن وجوہات کی بناء پر نیپال میں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور نوجوانوں میں ناراضگی پیدا ہوگئی تھی اس کو پیش نظر رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ ملک میں کرپشن کے خاتمہ اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کے اقدامات نئی اور عبوری حکومت کی اولین ترجیح ہونی چائے ۔ کرپشن کے جو معاملات عوام کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں ان کی جامع تاہم غیرجانبدارانہ تحقیقات بھی ہونی چاہئیں۔ جو خاطی ہیں یا گناہ گار ہیں انہیں سزائیں دی جانی چاہئیں تاہم جو بے گناہ ہیں انہیں کوئی نقصان نہیں پہونچایا جانا چاہئے ۔ سارے علاقہ اور خطہ کے امن کیلئے نیپال میں استحکام بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ نیپال کی سرحدات جن ممالک سے ملتی ہیں ان کیلئے بھی اور خود نیپال کیلئے بھی حالات کو بہتر بنایا جانا اہم ہے ۔ اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کئے جانے چائیں جن پر ملک کے عوام بھی اطمینان محسوس کریں۔ احتجاجیوں کے لئے بھی یہ قابل قبول ہو اور ملک کے استحکام اور بہتری کیلئے بھی ان سے مدد مل سکے ۔ صرف وقتی طور پر حالات پر قابو کرنے کیلئے کسی طرح کے اقدامات مستقبل کے تقاضوں کو پورا نہیں کر پائیں گے ۔ مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔