محمد نصیر الدین
نیکیوں کا موسم بہار ’’ماہ صیام‘‘ پھر سے جلوہ افروز ہوچکا ہے، نیکی کے شیدایوں کے لئے یہ بہت بڑی خوش بختی سے کم نہیں ہے۔ یہ وہ متبرک اور مقدس مہینہ ہے جس میں اجر و ثواب سیل رواں کی طرح جاری ہو جاتا ہے۔ نفل کا اجر فرض کے برابر اور فرض کا 70 فرض کے برابر کر دیا جاتا ہے۔ ایمان و احتساب کے ساتھ جو روزوں کا اہتمام کرتے ہیں ان کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ سمندر کی مچھلیاں روزہ داروں کی مغفرت کی دعا کرتی ہیں اور خود روزہ محشر کے دن سفارش کرے گا کہ ’’اے خدایا میں نے اسے کھانے پینے سے روکے رکھا تھا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما‘‘ یہ وہ مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا دوزخ سے نجات کا قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بدنصیب اور بدبخت قرار دیا ہے جو ماہ صیام کو پائے لیکن اپنی مغفرت نہ کروالے‘‘۔
اس مرتبہ ماہ مبارک ایسے وقت آیا ہے جب ساری دنیا میں لاک ڈاون چل رہا ہے۔ ہر طرف کرونا کی خوف و دہشت ہے، سب انسان گھروں تک محدود کردیئے گئے ہیں، حتی کہ مساجد پر تالے ڈال دیئے گئے ہیں اور عبادات بھی گھر ہی میں ادا کرنا لازم کردیا گیا ہے۔ کوئی افطار پارٹی نہیں، سحر کے پروگرام نہیں، تراویح کا اہتمام، سماعت قرآن کی محافل اور طاق رات کے روح پرور اجتماعات کا انعقاد بھی ممنوع ہو چکا ہے۔ اہل ایمان کے لئے یقینا یہ سب ایک سخت آزمائش سے کم نہیں ہے لیکن وقت و حالات کا یہی تقاضہ ہے جس کی پابندی سب کے لئے ضروری بھی ہے۔ تاہم لاک ڈاون کے دوران ماہ صیام کے ایام اپنے خالق و مالک سے لو لگانے، تعلق بڑھانے، ربط و تعلق مضبوط کرنے اور اپنے آقاو پروردگار سے قریب ہونے کا بہترین ذریعہ بھی ہیں کیونکہ لاک ڈاون نے سب کو دنیوی مصروفیات سے دور کردیا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ افراد جو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تقویض اور پرہیز گاری حاصل کرنے کے لئے اس وقت کو استعمال کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط بنانا ہر اہل ایمان کی دلی خواہش ہوتی ہے۔ فرائض و نوافل کی خشوع و خضوع سے ادائیگی، روزوں کا ایمان و احتساب کے ساتھ اہتمام، تلاوت قرآن، تہجد و تراویح اور طاق راتوں کا اہتمام بندے کو اپنے خدا سے قریب کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزوں کا مقصود ’’تقویٰ‘‘ عبادت و ریاضت ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ تقویٰ کیا ہے؟ انسان کی ساری زندگی اور زندگی کے سارے معاملات، لین دین، تجارت، تعلقات، معیشت و معاشرت حتی کہ عدالت و سیاست بھی احکام الٰہی کے تابع ہوجائے۔ انفرادی و اجتماعی زندگی شریعت کے مطابق بسر ہو اور انسانی زندگی سے ہر وہ عمل خارج ہوجائے جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہو۔ ایمان و احتساب کے ساتھ روزوں کے اہتمام کا مطلب یہی ہے کہ بندہ اس بات کا جائزہ لے کہ اس کی زندگی میں اللہ و رسول کی اطاعت کتنی ہے اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی نافرمانی کررہا ہے!!
لاک ڈاون سماج کے ایک طبقہ کے لئے مصیبت اور تکلیف کا باعث بن گیا ہے۔ ملازمت کاروبار، تجارت اور دیگر ذرائع روزگار بند ہیں جس کی وجہ سے کئی ایک خاندان نان و شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں۔ ماہ صیام کی مسرتیں اور خوشیاں ان کے لئے بے معنی ہوچکی ہیں۔ ماہ صیام کا خشوع و خضوع کے ساتھ اہتمام ان کے لئے بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے ایسے میں اللہ کے رسول ؐ کا وہ قول کہ ’’وہ مومن نہیں جو پیٹ بھر کے کھائے لیکن اس کا پڑوسی بھوکا رہے‘‘ سارے اہل شروت کو دعوت دے رہا ہے کہ وہ مواساۃ کے اس مہینہ میں غریبوں، محتاجوں اور ضرورتمندوں کی تکالیف دور کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ لاک ڈاون کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس نے اہل شروت کو کئی ایک غیر ضروری اور فضول خرچیوں سے محفوظ رکھ دیا ہے۔ ایسے میں ان کا فریضہ ہے کہ وہ دل کھول کر پریشان حال اور مصیبت زدہ افراد کی مدد کریں۔ ان کے لئے خاص طور پر سحر اور افطاری کا بندوبست کریں۔ لاک ڈاون کے دوران افطار و سحر پارٹی، حلیم و ہریس اور دہی بڑے اور انواع و اقسام کی ڈشس کا لطف اسی میں ہے کہ غریبوں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کے لئے ماہ صیام کے راشن کا انتظام کیا جائے۔ یہ نہ صرف دینی ذمہ داری ہے بلکہ وقت و حالات کا اہم تقاضہ بھی ہے۔ مزید یہ کہ جس نے بھی کسی خاندان کے لئے ماہ صیام کی ضروریات کی تکمیل کی اور وہ خاندان روزوں اور دیگر عبادات کا اہتمام کرتا ہے تو اس کا اجر و ثواب اس شخص کو بھی لے گا جس نے اس خاندان کے لئے سہولت پیدا کی۔ ہر سال ماہ صیام حفاظ کرام، ائمہ مساجد اور مساجد کے خدمت گذاروں کے لئے رحمت و برکت بن کر آتا ہے۔ ماہ صیام میں صاحب شروت اصحاب مذکورہ طبقہ کے ساتھ جو حسن سلوک اور خیر کا معاملہ کرتے ہیں وہ ان کی زندگیوں میں خوشی و مسرت کا باعث بن جاتا ہے، اسی طرح دینی مدارس کے اساتذہ اور معلمین کے لئے بھی ماہ صیام نوید بن کر آتا ہے لیکن رب کائنات کی مرضی اور منشاء کے سامنے کسی بھی سوپر پاور کی نہیں چلتی، چنانچہ مساجد بند ہیں، چندہ کا نظام مفلوج ہوچکا ہے، دیگر ریاستوں اور ممالک کے راستے مسدود ہوچکے ہیں۔ ایسے میں صاحب شروت افراد کو ان کی طرف خصوصی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو دین کا علم تھامے ہوئے ہیں، قرآن و سنت کی تعلیم جن کا مقصد حیات ہے، مساجد کی رونقیں ان کے دم سے ہیں اور آنے والی نسلوں تک دین و شریعت کی تعلیمات اور ایمان و یقین کی دولت منتقل کرنے میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ کرونا کے چلتے لاک ڈاون نے ان کی زندگیوں کو مسائل و مشکلات سے بھردیا ہے۔ لہذا جن بندوں پر اللہ تعالیٰ نے رزق کی فراوانی کی ہے ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان کی طرف توجہ کریں۔ کوئی موذن، کوئی امام، کوئی خطیب، کوئی معلم اور کوئی حافظ مواساتھ اور حسن سلوک سے محروم نہ رہنے پائے۔ لاک ڈاون کسی کے لئے بھی کسمپرسی، تکلیف اور مصیبت کا باعث نہ بن جائے۔ یقینا آج جو کوئی کسی کسی مصیبت زدہ کو راحت دلائے گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے قیامت کی ہولناکیوں سے راحت دلائیں گے۔
لاک ڈاون کے اچانک نفاذ کی وجہ سے کئی ایک ریاستوں کے مزدور اور دیگر اضلاع کے افراد بے یارومددگار بن گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اچانک نہ صرف اپنے گھر بار اور وطن سے دور ہوگئے ہیں ان کے اپنوں سے بھی دور ہوگئے ہیں۔ ایسے میں اکثر کے لئے ماہ صیام کی عبادتوں کا اہتمام مشکل امر بن گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ افراد جو خدمت خلق میں مصروف ہیں ان پریشان اور مصیبت زدہ افراد کی مدد و تعاون کے لئے آگے آئیں اور ان لوگوں کے لئے خاص ماہ صیام کے پس منظر میں ضروری مدد و تعاون کریں۔ ان بے یارو مددگار افراد کی طرف خصوصاً توجہ درکار ہے تاکہ وہ بھی ماہ صیام کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرسکیں۔
دینی مدارس بلاشبہ اسلام کے مضبوط قلعے ہیں جہاں قرآن و سنت کے سپاہی، شریعت کے مجاہد اصول و عقیدے کے پاسباں اور حکمت و دانش کے علمبردار تیار ہوتے ہیں۔ یہاں کے فارغین نے ہر زمانہ اور ہر ملک میں پرچم اسلام کو سربلند رکھا، باطل نظریات کا منہ توڑ جواب دیا۔ حق و صداقت کے امین بنے رہے۔ قوم و ملت کی رہنمائی اور قیادت کی اور انبیائی سنت کو جاری و ساری رکھا لیکن لاک ڈاون کی وجہ سے ان مقدس اداروں کا وجود خدانہ کرے سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ صاحب شروت اصحاب کی ساری توجہ لاک ڈاون کے چلتے مصیبت زدہ اور پریشان حال لوگوں پر ہے جس سے یہ خدشہ ہونے لگا ہے کہ ہر سال ان اداروں کو ہونے والا مالی تعاون اس مرتبہ کہیں کم نہ ہو جائے؟ اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو ان اداروں کا جاری رہنا مشکل بن جائے گا جو کہ دین و ملت کا شدید نقصان ثابت ہوگا۔ لہذا ملت کے صاحب خیر اور اہل شروت اصحاب کو حکمت اور ہوش مندی سے کام لینا ہوگا۔ حالات کا تقاضہ اور ضرورت ہے کہ اس مرتبہ صاحب حیثیت افراد اللہ کی راہ میں نپے تلے انداز میں خرچ کرنے کے بجائے دل کھول کر انفاق کریں۔ ہر دینی ادارہ کے انتظام و انصرام کا چند افراد ذمہ لے لیں اور کم از کم ایک سال کے لئے اس ادارہ کی مالی ضروریات کی تکمیل کی کوشش کریں تاکہ یہاں علم دین حاصل کررہے اللہ کے مہمان بلا رکاوٹ علم دین حاصل کرسکیں۔ موجودہ حالات میں اس طرف ملت کے اہل دانش کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
لاک ڈاون کے مضمرات کے علی الرغم اکثر خاندانوں کو مل بیٹھنے کے مواقع حاصل ہوئے ہیں۔ والدین اور بچوں کو پہلی مرتبہ ایسا موقع ملا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ گذارسکیں۔ بچوں کی ذہنی، اخلاقی اور دینی تربیت بدلتے حالات میں از حد ضروری بن گئی ہے۔ مادیت خود غرض، نفسانفسی اور مغرب کے بے دینی اور اخلاق سوز ماحول نے نئی نسل کے کردار و اخلاق پر زبردست حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے اچھے خاصے دینی گھرانے بھی مغربی تہذیب کے دلدادہ بنتے جارہے ہیں۔ جس کا نتیجہ دین سے دوری اور آخرت فراموشی کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ ایسے میں لاک ڈاون نے ایک اچھا موقع فراہم کیا ہے کہ والدین اپنے بچوں اور اہل خانہ کے اندر دینی شعور، خوف آخرت اللہ اور اس کے رسول ؐ سے عشق اور یوم جزاء کی فکر پیدا کریں تاکہ ان کی زندگی لہو و لعب اور دیگر خرافات سے پاک ہو جائے اور وہ ایک باعمل مسلمان بن جائیں۔