مولانا دبیراحمد قاسمی
نیک صحبت کی اہمیت
قرآن وسنت میں بار بارتاکید کے ساتھ صالحین کی صحبت اختیار کرنے ،مجالس ِخیر میں بیٹھنے اور بری صحبت سے گریز کرنے کی تلقین کی گئی ہے: يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوا اتَّقُوا اللّـٰهَ وَكُـوْنُـوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ…اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی صحبت اختیار کرو ۔(توبہ۱۱۹)
ایک موقع پرآپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم مو من کے علاوہ کسی کواپنادوست نہ بناؤ اور تمہاراکھاناصرف متقی لوگ کھائیں‘‘۔ (ابوداؤد)
یہ ہے اسلام کاتصورِ محبت ودوستی ،دوستوں کے عقائد و اعمال اور افکار ونظریات انسان پربہت گہرا اثر ڈالتے ہیں،اس لیے دوست کے انتخاب سے پہلے بہت غور وفکر کی ضرورت ہے ۔
آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتاہے؛ اس لیے تم میں سے ہر شخص کودیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہاہے ‘‘۔(مسند احمد، ترمذی)
جس طرح اہلِ صدق واہلِ تقویٰ کی صحبت انسان کی زندگی پر مثبت اثر ڈالتی ہے، اسی طرح برے لوگوں کی صحبت وہم نشینی کے منفی اثرات بھی زندگی پر پڑتے ہیں،رسول اللہ ﷺنے ایک دل نشیں مثال کے ذریعہ اس کی وضاحت فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ برے ہم نشیں اور اچھے ساتھی کی مثال عطار اور لوہار کی سی ہے ۔اچھا ساتھی عطر فروش کی طرح ہے کہ یا تو وہ تمہیں عطر تحفتہً دے گا یا تم اس سے عطر خرید کروگے یا کم ازکم تم اس کے پاس اس کی پاکیزہ خوشبو سے لطف اندوز ہوگے۔برا ساتھی بھٹی میں دھونکنے والے کی طرح ہے جو یاتو تمہارے بدن اور کپڑے کو جلا دے گایا تم اس کی بدبو پاؤگے۔
ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’بروں کی صحبت میں نہ بیٹھو ؛اس لیے کہ ان کی صحبت دل اور روح کو بیمار کردیتی ہے‘‘ ۔بروں کی صحبت دین وایمان کو تباہ کردیتی ہے اور انسان کو راہِ حق سے منحرف کردیتی ہے ،بروں کودوست رکھنے والا قیامت میں پشیمان اور شرمندہ ہوگا ،وہ کہے گا کہ اے کاش میں نے فلاں شخص کو اپنادوست نہ بنایاہوتا، اس نے مجھے حق حاصل ہونے کے بعد راہِ حق سے پھیر دیا ۔
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى يَدَيْهِ يَقُوْلُ يَا لَيْتَنِى اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا o يَا وَيْلَتٰى لَيْتَنِىْ لَمْ اَتَّخِذْ فُـلَانًا خَلِيْلًاo لَّـقَدْ اَضَلَّنِىْ عَنِ الـذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِىْ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًاo
ترجمہ: اور جس دن ناعاقبت اندیش ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کھائے گااور کہے گاکہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا۔اے کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا،اس نے مجھ کو کتاب نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا۔
(الفرقان:۲۷-۲۹)
صحبتِ صالح کے ثمرات
اس کے برخلاف نیکوں کی صحبت بگڑے ہووں کو سنوار دیتی ہے ،ان کی نگاہ کا فیض مِسِ خام کو کُندن بنادیتا ہے۔قتل وغارت گری کے خوگر اورانسانیت کے دشمن جب ان کی صحبت میں بیٹھتے ہیں تو امن کے سفیر اور حق کے پرستار بن کر نکلتے ہیں۔نبی کریم ﷺ کے فیضِ تربیت نے حضراتِ صحابہؓ کو آسمانِ ہدایت کا درخشندہ ستارابنادیا ۔یہ آپﷺ کی صحبت کافیض تھا کہ ذرے آفتاب وماہتاب بن گئے،جو گم کردہ راہ تھے وہ اوروں کے ہادی بن گئے۔مدرسہٴ نبوت کے خوشہ چینوں سے جنھوں نے اکتسابِ فیض کیا،انھیں تابعی ہونے کاشرف حاصل ہوا ،انھوں نے نبوت سے قریب کازمانہ پایاتھا؛ اس لیے وہ اخلاص وللہیت ، دیانت وتقوی اور انابت الیٰ اللہ میں صحابہؓ کی ہوبہو تصویر تھے ۔ حضراتِ تابعین کی نگاہِ لطف ومحبت نے تبع ِ تابعین کو اخلاق واخلاص کاگوہرِ نایاب بنادیا ۔
یہ سب کرشمے تھے اہلِ سعادت کی صحبت وہم نشینی کے
جمال ہم نشیں درمن اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم