مولانا دبیراحمد قاسمی
غزوئہ حنین سے واپسی کے موقع پر آپﷺنے ایک مقام پر نماز کیلئے پڑاؤ ڈالا حضرت بلالؓ نے اذان کہی تومشرکین کے کچھ بچے جووہاں کھیل کود میں مصروف تھے اذان کامذاق اڑانے لگے ،ان بچوں میں حضرت ابومحذورہؓ بھی تھے آپ ﷺنے ان کو اپنے قریب بلایا اور دوبارہ اذان کے کلمات کہلوائے ابومحذورہؓکی عمر اس وقت سولہ برس تھی ان کلمات کامفہوم وہ خوب سمجھتے تھے یہ ان کے مشرکانہ عقیدے سے متصادم تھا؛ اس لیے انھوں نے جھجکتے ہوئے شہادت کے الفاظ کہے؛ مگراِسے ان الفاظ کی تاثیر کہیے یااعجازِ مسیحائی کہ اس کا اثر ان کی روح میں اتر تاچلاگیا ۔
ماحول کی اثر انگیزی حکومت کے قوانین سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے؛ چنانچہ حدود وتعزیرات کے ذریعے اس طرح جرائم پر قابونہیں پایاجاسکتا جس طرح اچھی تربیت انسان کو جرائم سے باز رکھ سکتی ہے۔ تعزیرات اور سزائیں گناہوں کا خوف تو دل میں پیدا کرسکتی ہیں؛ لیکن گناہوں کی نفرت دل میں نہیں بٹھاسکتیں؛ اس لیے اسلام نے معاشرہ کی اصلاح پر بہت زور دیاہے ، جب تک ایک اچھاماحول پیدا نہ ہوجائے کوئی صالح معاشرتی انقلاب رونمانہیں ہوسکتا ۔ رسول اللہ ﷺنے بچوں کے والدین کو حکم فرمایاکہ: ’’اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور ترکِ نماز پر ان کو مارو جب وہ دس برس کے ہوجائیں‘‘۔(رواہ احمدوابوداؤد)تاکہ ابتدا سے انھیں اچھااور بہتر ماحول ملے اور آگے چل کر ان کی شخصیت کی تعمیر صحیح خطوط پر ہوسکے ۔
نیک بیوی کا انتخاب
ازدواجی زندگی کی رفاقت سب سے طویل ہوتی ہے اور اسی نسبت سے وہ انسان کے اخلاق وکردار پر سب سے زیادہ اثر اندازہوتی ہے۔ اس لیے شوہروں کو یہ حکم دیا گیاکہ وہ اپنے لیے ایسی شریکِ حیات کا انتخاب کریں جس میں دین واخلاق کا جوہر ہو۔
فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ ترجمہ: تو دیندار بیوی کو حاصل کر تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ (سنن ابن ماجہ)
ابن ماجہ ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے:’’عورتوں سے (محض)ان کی خوبصورتی کی وجہ سے شادی مت کروہوسکتا ہے کہ ان کی خوبصورتی ان کو ہلاکت میں ڈال دے اور نہ ان سے ان کے مال کی وجہ سے شادی کرو ان کے اموال ان کو سرکش بنا دیں گے؛ البتہ ان سے دین داری کی بنیاد پر شادی کرواور یقینا کان میں سوراخ والی کالی باندی جو دیندار ہو بہتر ہے‘‘۔
زندگی کے طویل اور اُکتا دینے والے سفر میں بہت سے نشیب وفراز آتے ہیں،یہ صرف پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا سفر بھی ہے، اس کٹھن سفر میں جس طرح ایک نیک خاتون مرد کے شانہ بشانہ چل سکتی ہے کسی بے دین اور مغرب زہ عورت سے ہرگز اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
علامہ سندی نے ابن ماجہ کی اس حدیث پر جوحاشیہ قلمبند کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی مثال قرآن کی یہ آیت ہے: اور بیشک مسلمان لونڈی (آزاد)مشرک عورت سے بہترہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے“۔
نیک عورت نہ صرف یہ کہ شوہر کے حقوق ٹھیک طور پر ادا کرے گی؛ بلکہ اس کے بچوں کی اصلاح اور تربیت کا فرض بھی بخوبی انجام دے گی،اس کی وجہ سے گھر میں خوش گوار اور دینی ماحول پیدا ہوگا۔
مردوں کی طرح عورتوں کے اولیاء کو بھی حکم دیا گیاکہ وہ ان کے لیے ان مردوں کا انتخاب کریں جن کادین اور اخلاق پسندیدہ ہو۔
جب تمہیں ایسے لوگ پیغام نکاح دیں جن کا دین اور اخلاق عمدہ ہو تو ایسے لوگوں سے اپنی عورتوں کا نکا ح کردو اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ اور فساد ہوگا۔(ترمذی ۱۰۷۴)