وائیناڈ کا سانحہ

   

زندگی میں تو کوئی ایک ٹھکانہ نہ ملا
بستیاں ہم نے بسائیں بھی تو گھر گھر بدلے
کیرالا کے وائیناڈ زمینی تودے کھسکنے اور گرنے کا جو سانحہ پیش آیا ہے وہ انتہائی دلخراش ہے ۔ اس سانحہ میں جملہ 300 سے زائد افراد اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں جبکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ مزید 100 افراد لاپتہ ہیں۔ ابھی ان کی تلاش جاری ہے ۔ نہ ان کا کوئی اتہ پتہ چلا ہے اور نہ ہی ان کی نعشیں دستیاب ہوئی ہیں۔ ریاستی انتظامیہ کی جانب سے اس سانحہ کے بعد راحت و امدادی کاموں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ یہ کام بہت بڑے پیمانے پر کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ اس میں صرف حکومتیں نہیں بلکہ خانگی افراد اور اداروں کو بھی اپنا رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیرالا کی پڑوسی ریاستوں نے وائیناڈ سانحہ سے نمٹنے کیلئے راحت و امدادی کاموں میں مدد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے بھی ہر ممکن مدد فراہم کرنے کا تیقن دیا جا رہا ہے ۔ کچھ رضاکارانہ تنظیمیں بھی اس سانحہ کے بعد حالات سے نمٹنے کیلئے مدد فراہم کر رہی ہیں۔ یہ آفات سماوی ہے اس میں انسان یا انسانی کاموں کا کوئی دخل نہیں ہوسکتا ۔ یہ ضرور ہے کہ حالات کو محسوس کرتے ہوئے قبل از وقت کچھ احتیاطی اقدام کئے جاسکتے ہیں لیکن اس طرح کے سانحوں سے بچنا یا ٹالنا تقریبا نا ممکن ہے ۔ ایسے میں اس طرح کے حالات میں کسی طرح کی سیاست کرنے سے سبھی کو گریز کرنا چاہئے ۔ یہ وقت متاثرین کے غم میں برابر کے شریک ہونے کا ‘ ان کی مشکلات کو دور کرنے کا ‘ انہیں ممکنہ حد تک راحت فراہم کرنے کا اور ان کی دلجوئی کرنے کا ہے ۔ انہیں تسلی دینے کا ہے ۔ انہیں بنیادی ضروریات کی تکمیل میں مدد کرنے کا ہے ۔ سیاست کیلئے حالات اور ہوتے ہیں۔ کسی کی تکلیف یا بحران میں سیاست کرنا مناسب نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہندوستان کی روایات کے مطابق ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ یہ انتہائی مشکل وقت ہے اور اس میں متاثرین کی مدد کی جانی چاہئے کچھ گوشوں کی جانب سے راحت فراہم کرنے کی بجائے سیاست کی جا رہی ہے ۔ اس طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیں جیسے کہ یہ سانحہ ریاستی حکومت کی کارستانی ہو یا پھر وائیناڈ کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والوں کی ہو ۔ اس طرح کی سیاست انتہائی نامناسب ہے ۔
مرکزی حکومت کی جانب سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ کیرالا کو قبل از وقت خبردار کیا گیا تھا ۔ ایک اڈوائزری جاری کی گئی تھی اور کیرالا حکومت نے اس پر سنجیدگی سے کوئی کارروائی نہیں کی ۔ سب سے پہلے تو کسی بھی اڈوائزری میں یہ دعوی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی سانحہ گھٹنے والا ہے ۔ اس کے علاوہ پیشگی اقدامات بھی اتنے موثر نہیں ہوسکتے کہ آفات سماوی کو ٹال سکیں۔ عوام کیلئے قبل از وقت اقدامات کرکے انہیں خبردار کرکے کچھ جانی و مالی نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن آفات سماوی کو ٹالنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔جہاں تک نقصانات کی بات ہے تو اس کا بھی کوئی تعین نہیں کرسکتا کہ کس سانحہ میں کتنا نقصان ہوناچاہئے ۔ اگر اڈوائزری جاری کی بھی گئی اور اس کو نظر انداز کیا گیا ہو تو اس پر حالات کو معمول پر لانے کے بعد اظہار خیال کیا جاسکتا ہے ۔ سب سے پہلے ریاستی اور مرکزی حکومتو ں کی یہی ذمہ داری بنتی ہے کہ سانحہ یا واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی بجائے متاثرہ عوام اور خاندانوں کی مدد کی جائے ۔ کئی گھر اجڑ گئے ہیں۔ کئی خاندان تباہ ہوگئے ہیں ۔ کئی خاندان ایسے ہیں جن میں محض ایک یا دو فرد زندہ بچ پائے ہیں۔ جو زندہ ہیں وہ بھی اپنوں سے دور ہیں۔ کوئی لاپتہ ہے تو کوئی بے یار و مددگار کہیں پڑا ہے ۔ کسی کو غذا دستیاب نہیں ہے تو کسی کو ادویات کی ضرورت درپیش ہے ۔ حکومتوں کو اس جانب توجہ دیتے ہوئے متاثرہ افراد کی تکالیف اور پریشانیوں کو کم کرنا چاہئے ۔ ان کی داد رسی کی جانی چاہئے ۔ ان کے حوصلے بلند کئے جانے چاہئیں۔ ان کے نقصانات کی پابجائی اور تلافی کے اقدامات کئے جانے چاہئے ۔ انہیں زندگی سے قریب کیا جانا چاہئے ۔
بی جے پی ہو یا کچھ دستوری عہدوں پر فائز افراد ہوں سبھی ایسا لگتا ہے کہ اس آفت سماوی پر انسانی ہمدردی کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے سیاسی مخالفت کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ رویہ انتہائی نا مناسب ہے اور اس کو ترک کیا جانا چاہئے ۔ کون کس کیلئے ذمہ دار ہے اس کا تعین بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے ۔ عوام کی تکالیف کے ازالہ اور راحت رسانی پر توجہ دی جانی چاہئے کیونکہ آج بھی متاثرین مدد کے منتظر ہیں اور راحت کے کام جاری ہیں۔ ان ہی کاموں کو پوری تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا جانا چاہئے ۔