واقعہ کربلا کا خاص پہلو

   

مرسل : ابوزہیر نظامی
حضرت سیدنا امام حسین رضی اﷲ عنہ کی بے مثال شخصیت کے عظیم کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپؓ جو قربانی پیش کئے ہیں میدان کربلا میں وہ صرف اور صرف توقیر انسانیت کے بچاؤ کیلئے بڑے خلوص اور سچائی کے ساتھ پیش کئے۔ یہ اعلی و ارفع اقدام خاندان نبوت کے چشم چراغ کا ہی مقدر تھا۔دراصل حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسلامی اصول کے تحفظ اور نانا جان حضرت محمد عربی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت کی اہمیت جتانا اور اسکی بقا چاہتے تھے۔ عدل و انصاف کے حامی تھے۔ جبر و اقتدار سے قوت احساس و جراتِ اظہار سلب ہوچکی تھی سیدنا حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اُن قوتوں کو بیدار کرنا چاہتے تھے۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قوت کا مقابلہ کردار سے، ظلم کا مقابلہ مظلومیت سے اور اکثریت کا مقابلہ اقلیت سے کرکے امت کو وہ نیا انداز جنگ دیا کہ جس سے مردہ احساسات میں جان آگئی۔ اور یزیدی سلطنت اور یزیدی فکر کے حامل افراد کا خاتمہ کردیا۔اگر حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کا مقصد اقتدار کا حصول ہوتا تو آپؓ فوج جمع کرتے، ہتھیار کا ڈھیر لگادیتے، اور ایسا نہ ہوا یہ جنگ انقلابِ ذہنیت کی جنگ تھی، یہ جنگ جسم نہیں دل فتح کرنے کی جنگ تھی، یہاں تختہ اُلٹنا مقصد نہیں تھا بلکہ تا قیام قیامت لوگوں کے ذہنوں کو بدلنا مقصود تھا۔واقعہ کربلا میں ایثار و مواسات، عزم و استقلال، صبر و رضا، ہدایت و صداقت، نظم و ضبط، وفاداری و استقامت اور شجاعت کا رنگ تھا۔صنف نسوان نے بھی اس طوفان میں جو یزیدی فوج کی صورت میں کربلا کے مجاہدین پر چھایا ہوا تھا۔ رشد و ہدایت کے وہ موتی بکھیرے کہ جس کی چمک دائمی ہوگئی اس قافلہ کے مظلوم سب کچھ گوارا کئے مگر یزید کی بیعت کا اشارہ تک نہ دیا مائیں جو اولاد کی زندگی کے لئے دعائیں مانگتی ہیں، کربلا کے میدان میں دین حق کی راہ میں قربان ہونے کی وصیت کرتیں اور ان کی شہادت پر سجدہ شکر بجالاتیں، شریعت و سیرت کی حفاظت اور انسانیت کی بھلائی ہی مقصد حسینی رہا یہ مظلوم قافلہ رہتی دنیا تک بے مثال نمونہ بن گیا۔