ڈاکٹر حافظ سید شاہ خلیل اللہ اویسؔ بخاری
آپ ﷺ نے ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کو اولیت دی ہے اور باپ کا درجہ اُس کے بعد بتایا ہے۔ ایک صحابی ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے پوچھا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے؟ فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پھر یہی پوچھا کہ اس کے بعد۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ صحابیؓ نے تیسری مرتبہ پوچھا، اس کے بعد۔ تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ ﷺ نے فرمایا، پھر تمہارا باپ۔ (صحیح مسلم)
جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث پاک میں آپ ﷺ نے ماں کا مقام ۳ مرتبہ ذکر کیا ، اس کی وجہہ یہ ہے کہ ماں ، باپ کے مقابلہ میں تین مرتبہ زیادہ تکلیفات و مشقتوںسے گذرتی ہیں۔
اول: حمل کے دوران کی تکلیف و مشقت
دوم: بچوں کی ولادت کی مشقتیں
سوم: اولاد کی پروش ، دودھ پلانا اور سنبھالنا
اسی بناء پر مصطفی کریم ﷺ نے ماں کا مقام و مرتبہ تین مرتبہ ذکر فرمایا پھر والد کا ذکر کیا۔ اسی جانب قرآن مجید بھی تذکرہ کرتا ہے: ’’اس ماں نے تکلیف جھیل کر اُسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اُسے جنا۔‘‘ حضرت عبدا للہ بن عمر ؓسے کسی نے پو چھا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو اپنے کندھے پر اُٹھایا اور بیت اللہ لایا اور اسی طرح کندھے پر اُٹھا کر حج کے منا سک ادا کروائے، کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا؟ تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرما یا: ’’نہیں، ہر گز نہیں، یہ سب تو ماں کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگایا تھا۔‘‘
والد کا مقام و مرتبہ بھی کچھ کم نہیں ، وہ تو جنت کا درمیانی زینہ ہے ، اس کی رضا اللہ کی رضا ہے ، اس کی ناراضگی اللہ عز وجل کی ناراضگی کا سبب ہے۔ اس کی دعا یا بدعا کبھی رد نہیں ہوتی ، لہذا والد کااحترام ہو ، ان کی سختی کو برداشت کیا جائے ، ان کے سامنے اپنی نظریں نیچی رکھیں اور ان سے آگے نہ چلیں ، ان کے تجربات سے سیکھا کریں ، ان کے وجود کو غنیمت جانیں ورنہ ان کے جانے کے بعد کوئی ہمیں وہ ہمت و دلاسہ دینے والا نہیں رہتا۔ ان کی بات سنی جائے اور ان کا کہا مانا جائے اور عملی طور پر ان کو راضی کیا جائے۔ ان کے ساتھ ہر لمحہ ، نرم خو ، نرم دل ، مہذب و باآدب گفتگو کی جائے، جب بھی کسی معاملہ میں اُن سے اختلاف ہو تو اسے بہتر اور احسن پیرائے میں سمجھایا جائے۔ اُن کی موجودگی میں اُن کی سمت پیر پھیلاکر بیٹھنا ، اپنے فون میں مصروف رہنا اُن کی بات پر اپنی بات کو مقدم رکھنا ، اُن کے سامنے اونچی آواز میں مخاطب ہونا یہ سب بے ادبی والے کام ہیں۔ ہمیشہ اُن کیلئے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعاگو رہیں۔ خصوصا جب وہ بوڑھے ہوجائیں تو ان کا اور خصوصی خیال رکھا کریں۔ جب وہ دنیا سے رخصت ہوجائیں تو اُن کیلئے ایصالِ ثواب کریں ، اُن کی بخشش و مغفرت کیلئے دعا کرتے رہیں ، اُن کی قبر کی کم ازکم ہر جمعہ زیارت کیا کریں ۔ اُن کا کوئی قرض یا کوئی حقوق رہ جائیں تو اُن کو ادا کیا کریں۔ ان کی وصیت کو پورا کیا کریں۔ اُن کے انتقال کے بعد اُن کے رشتہ داروں سے حسن سلوک کیا کریں ، اُن کی خبر گیری کریں۔ ان کے دوست احباب جن سے آپ کا کوئی تعلق نہ ہو ان سے صرف والدین کے تعلق کی بناء پر ملاقات کریں اور ضرورت کو پورا کیا کریں۔
افسوس کا مقام ہے ہم دین اسلام کی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں ان میں سب سے اہم والدین سے حسن سلوک ہے ۔ ہم آج مغرب کی اندھا دھند تقلید میں ہمارے ہاں بھی Oldage Homes بن رہے ہیں والدین کو اولاد اُن کے گھر سے نکال رہی ہے یا خود اُن کو چھوڑ کر الگ ہو جاتی ہے۔ اور اس بے حسی، ظلم پر ذرا بھی شرمسارنہیں ہے ۔ موجودہ دور میں والدین سے بد سلوکی، بد زبانی، طعنے دل دکھانے والی باتیں تو ایک معمول بن چکا ہے۔ اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ ماں باپ کے پاس بیٹھنے، باتیں کرنے کا تک اُن کے پاس وقت نہیں ہے۔
