ورون گاندھی کے اختلافی بیانات

   

Ferty9 Clinic

بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ورون گاندھی حالیہ عرصہ میں حکومت کے موقف کے خلاف بیانات دینے لگے ہیں۔ ورون وقفہ وقفہ سے اپنی بیان بازیوں کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے ماضی میںکچھ متنازعہ بیانات دئے تھے اور بی جے پی کی اعلی قیادت کو خوش کرکے اس سے قربت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی تھی ۔ ان کے بیانات انتہائی شدید اور جارحانہ نوعیت کے تھے جس کی وجہ سے انہیں عوامی برہمی اور ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا ۔ پارلیمنٹ کیلئے 2019 میں بھی منتخب ہونے کے بعد وہ بتدریج خاموش ہوگئے تھے ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اترپردیش کی سیاست میں انہیں زیادہ مواقع فراہم نہیں کئے جا رہے ہیں اور وہ اس پر بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے حالیہ عرصہ میں دو بیانات ایسے دئے ہیں جن سے حکومت کے خلاف موقف کا اظہار ہوتا ہے ۔ورون گاندھی نے چند دن قبل ایک بیان دیتے ہوئے مدھیہ پردیش میں ایک چوڑی فروش کو مار پیٹ کرنے کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے ۔ ورون گاندھی کا یہ بیان بی جے پی کے معلنہ موقف کے برخلاف سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ بی جے پی کے کسی بھی رکن پارلیمنٹ یا پھر کسی اور دوسرے لیڈر نے اس طرح کے واقعات پر کبھی بھی مذمتی بیان نہیں دیا ہے ۔ کبھی میڈیا میں دبے دبے الفاظ میں کچھ کہا بھی ہے تو اس میں بھی حملہ آوروں کے دفاع کا خاص خیال رکھا گیا تھا ۔ ورون گاندھی نے اب ملک میں احتجاج کر رہے کسانوں کے حق میں بیان دیا ہے ۔ انہوں نے کسانوں کو اپنا خون اور حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کسانوں سے بات چیت کا احیاء کرنا چاہئے ۔ ان کا یہ دعوی تھا کہ آج مظفر نگر میںکسانوں کی جو مہا پنچایت ہوئی ہے اس میںلاکھوں کسانوں نے شرکت کی ہے اور حکومت کو ان کی تکلیف کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کسانوں کے ساتھ حکومت کو بات چیت کا احیاء بھی کرنا چاہئے تاکہ اس مسئلہ کی یکسوئی کی جاسکے ۔ ورون گاندھی نے جس طرح واضح الفاظ میں بیان دیا ہے ایسا بیان کسی اور بی جے پی لیڈر نے نہیں دیا ہے ۔
ورون گاندھی ویسے تو بی جے پی کی اعلی قیادت سے کبھی بھی زیادہ قریب نہیں رہے ہیں حالانکہ ان کی والدہ منیکا گاندھی نے تعلقات کو استوار رکھنے میں اہم رول ادا کیا ہوا ہے اور وہ مرکزی کابینہ میں بھی شامل رہی ہیں۔ حالیہ عرصہ میں منیکا گاندھی کا ایک آڈیو وائرل ہوا تھا جس کے بعد سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے انہیں بھی حاشیہ پر لانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ ایسے میں اگر ورون گاندھی کی جانب سے حکومت کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے بیانات جاری کئے جا رہے ہیں تو پھر اس کے ضرور سیاسی عواقب ہوسکتے ہیں۔ ورون گاندھی کو ملک کو درپیش کئی اور بھی اہمیت کے حامل مسائل پر مزید کھل کرا ظہار خیال کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے ۔ خاص طور پر فیول قیمتوں کے ذریعہ عوام کو لوٹا جا رہا ہے ۔ پٹرول ‘ ڈیزل اور پکوان گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے حکومت اپنا خزانہ بھرنے پر توجہ دے رہی ہے ۔ ورون گاندھی کو اس پر بھی اظہار خیال کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح انہوںنے ایک چوڑی فروش پر حملے کی مذمت کی تھی اسی طرح ملک بھر میںپیش آنے والے ہجومی تشدد اور فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے والے تمام ہی واقعات کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں معاشی امور میں حکومت کے غلط فیصلوں کی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے اور ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سدھارنے کیلئے بھی حکومت پر دباو ڈالنا چاہئے ۔
آج ملک میں بیروزگاری انتہائی عروج پر پہونچ گئی ہے ۔ سرکاری ملازمتیں ایک طرح سے بند ہوگئی ہیں اور جو ملازمتیں پہلے سے موجود ہیں ان میں بھی انتہائی تیزی کے ساتھ کمی کی جا رہی ہے ۔ اس طرح فلاحی اسکیمات کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے ۔ بحیثیت رکن پارلیمنٹ ورون گاندھی تمام حقائق سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے ذریعہ انہیں حقیقی تصویر کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان مسائل کی یکسوئی کیلئے حکومت پر دباو ڈالنا چاہئے ۔ اپنے موقف کو واضح کرنا چاہئے ۔ اگر وہ محض سیاسی مقصد براری کیلئے اس طرح کی بیان بازی کر رہے ہیں تو ان کی سنجیدگی مشکوک ہوجاتی ہے ۔