وزیراعظم مودی کا دورہ بنگلہ دیش

   

Ferty9 Clinic

اب تک میری آنکھوں سے خون رستا ہے
زخم ابھی تک تازہ ہے رسوائی کا
وزیراعظم مودی کا دورہ بنگلہ دیش
وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ بنگلہ دیش دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ تعلقات کو مزید مضبوط بنائے گا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر وزیراعظم بنگلہ دیش شیخ حسینہ نے وزیراعظم کو مدعو کیا تھا۔ اس سے باہمی مسائل پر تبادلہ خیال کرنے اور حل طلب مسائل پر توجہ دینے کا موقع ملا ہے۔ وزیراعظم مودی نے اپنے دورہ سے قبل مسرت کا اظہار کیا تھا کہ کوروناوائرس کے بعد ان کا پہلا بیرونی دورہ ہے۔ دو روزہ دورہ پر ڈھاکہ پہنچ کر وزیراعظم نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ سے جڑے ایک آندولن میں حصہ لینے کا تذکرہ کیا۔ بنگلہ دیش مکتی سنگرام سے جڑے ایک آندولن کے وقت وہ نوجوان تھے اور اس کے لئے وہ جیل بھی گئے تھے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے تڑپ ہندوستان میں بھی تھی۔ یہی وجہ ہیکہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے دوبارہ دیرینہ تعلقات کو اتنا مضبوط بنایا ہیکہ یہ کسی بھی حالت اور دباؤ میں ٹوٹ نہیں سکتے۔ وزیراعظم کا یہ دورہ بنگلہ دیش کے رہنما شیخ مجیب الرحمن کو خراج کے طور پر بھی دیکھا گیا ہے کیونکہ ہندوستان کی جانب سے شیخ مجیب الرحمن کو گاندھی امن ایوارڈ سے بھی بعداز مرگ نوازا گیا ہے۔ سفارتی سطح پر دونوں ملکوں کے لئے یہ دورہ نہایت غیرمعمولی ہے۔ دونوں ملکوں کا ثقافتی رابطہ بھی مضبوط ہوگا۔ بنگلہ دیش کے قومی دن کے پروگرام میں مودی نے اعزازی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی۔ وزیراعظم مودی کے دورہ کے لئے بہت پہلے ہی تیاریاں کی گئی تھیں لیکن کورونا کی وجہ سے دورہ کو منسوخ بھی کرنا پڑا تھا۔ 17 ڈسمبر کو ورچول چوٹی کانفرنس میں وزیراعظم مودی اور وزیراعظم بنگلہ دیش شیخ حسینہ نے شرکت کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ دورہ کے دوران وزیراعظم نے کئی یادداشت مفاہمت پر دستخط کررہے ہیں۔ ہند۔ بنگلہ کے درمیان تجارتی تعلقات بھی اہم معنی رکھتے ہیں لیکن ان تعلقات میں بعض سیاسی رکاوٹیں بھی دیکھی گئی ہیں۔ تجارت کے لئے کسی بھی ملک کے ساتھ عملی رکاوٹیں آتی ہیں تو یہ ہر دو جانب کیلئے نقصان کا باعث ہوتے ہیں، جیسا کہ وزیراعظم بنگلہ دیش شیخ حسینہ نے تجارتی تعلقات میں سیاسی رکاوٹوں کو حائل نہ ہونے کی خواہش کی ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ تریپورہ میں دریا پر بنائے جانے والے پل کو بھی تجارتی سرگرمیوں کے لئے اہم متصور کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے تعلق سے ہندوستان کا ہمیشہ سے ہی نرم گوشہ رہا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہیکہ اس مرتبہ وزیراعظم مودی کے دورہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ ڈھاکہ اور چٹگانگ میں مظاہرین نے مودی کے دورہ پر ناراضگی ظاہر کی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ مودی حکومت نے کئی زیادتیاں کی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف کئی قوانین بناتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنادیا ہے۔ احتجاجیوں کے غم و غصہ کو دیکھتے ہوئے کہا جارہا ہیکہ وزیراعظم مودی کے خلاف مظاہرہ دراصل ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بنگلہ دیش کے عوام کا شدید ردعمل ہے لیکن اس احتجاج کو ایک وقتی مرحلہ متصور کیا جانا چاہئے۔ اس احتجاج کا دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہئے۔ تجارت، معیشت اور سرمایہ کاری اس وقت ایسے اہم موضوعات ہیں جو دونوں جانب کے عوام کی خوشحالی کیلئے کام آتے ہیں۔ وزیراعظم نے بنگلہ دیش کے سرمایہ کاروں کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کیلئے مدعو کیا ہے۔ ہند۔ بنگلہ تعلقات سے باہمی رابطہ کاری اور معاشی ترقی کی راہیں مزید کشادہ ہوں گی۔ اب تک دونوں جانب سرحدی معاہدہ، ہندوستان کے ساتھ 1965 سے قبل کے ریل رابطہ کی بحالی کے علاوہ آبی تنازعہ کی یکسوئی کی کوشش کی جاچکی ہے۔ بنگلہ دیش، شمال مشرقی ہندوستان سے جوڑنے والا ملک ہے اس لئے وزیراعظم مودی بھی ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کو ترجیحی بنیادوں پر مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ توقع کی جاتی ہیکہ وزیراعظم کے اس دورہ سے دونوں ملکوں میں اعتماد سازی، بھروسہ مندی اور تجارتی روابط کو مزید فروغ ملے گا۔ ہندوستان کے لئے اس کا ہر پڑوسی ملک معاشی، سیاسی، ثقافتی اور سیکوریٹی وجوہات کی بنیاد پر اہم ہے۔ نیپال کے ساتھ سرحد کھلی ہے اور خصوصی روابط ہیں تو بھوٹان کے ساتھ بھروسہ مند تعلقات اور بحرہ ہند میں سری لنکا کا وجود بھی خاص ہے کیونکہ سمندر میں ہندوستان کے مفادات پائے جاتے ہیں اس لئے سری لنکا ایک معاون پڑوسی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش سے بھی ہندوستان کے تعلقات کو پہلے سے زیادہ مضبوط و فروغ دینے میں وزیراعظم کا دورہ معاون ثابت ہوگا۔
تلنگانہ میں لاک ڈاؤن نہیں
تلنگانہ میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسوں کے درمیان چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے بہت بڑا جوکھم مول لیتے ہوئے لاک ڈاؤن نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ سال جب سارا ملک لاک ڈاؤن کے نفاذ پر غور کررہا تھا۔ چیف منسٹر نے تلنگانہ میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے یا نہ کرنے میں پس و پیش کیا تھا تاہم بالآخر انہیں بھی ریاست میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ اس مرتبہ کورونا کی نئی شکل پہلی لہر سے زیادہ خطرناک تباہی مچارہی ہے اس کے باوجود تلنگانہ میں لاک ڈاؤن نہ کرنے کا فیصلہ عوام خاص کر غریب مزدوروں اور لیبر طبقہ کے مصائب کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ دیگر ریاستوں میں کورونا کیسوں میں اضافہ کے پیش نظر لاک ڈاؤن اور رات کا کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔ مہاراشٹرا میں رات کا کرفیو نافذ کرتے ہوئے 144 امتناعی احکام بھی جاری کئے گئے ہیں۔ تلنگانہ کے عوام کو لاک ڈاؤن کی مار سے بچانے کیلئے چیف منسٹر نے بڑا فیصلہ کیا ہے تو کورونا کے بڑھتے کیسوں پر قابو پانے کیلئے متبادل احتیاطی اقدامات اور تدابیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹھیک ایک سال پہلے ساری دنیا میں کورونا وائرس پر قابو پانے اور اس کے زور کو توڑنے کیلئے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔ اب دوسری لہر کے تیزی سے پھیلنے کے واقعات کے باوجود لاک ڈاؤن پر غور نہیں کیا گیا۔ عوام نے بھی وبا کی پہلی لہر کے دوران احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے خود کو گھروں میں بند کرلیا تھا۔ کاروبار بند تھا لیکن دوسری لہر کے بارے میں چند ٹھوس ثبوت دکھائی دینے کے باوجود لاک ڈاؤن نافذ نہ کرنا ایک بڑے جوکھم میں ڈال سکتا ہے۔ لہٰذا عوام کو ازخود احتیاط کرنے، ماسک لگانے اور دیگر ضروری امور پر عمل کرتے ہوئے وائرس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔