وزیر اعظم کا تشہیری حربہ

   

سازش ہے دشمنوں کی نئی بات کچھ نہیں
پوشیدہ کچھ ملے ہیں جو خنجر یہاں وہاں
وزیر اعظم نریندر مودی ویسے تو ہر مسئلہ پر خوب تشہیر کو ترجیح دیتے ہیں۔ پی آر اور مارکٹنگ پر خاص توجہ کے ساتھ ایک ماحول بنانے کی ہر مسئلہ پر کوشش کی جاتی ہے ۔ ہندوستان میں ہونے والی ہر تبدیلی کیلئے نریندر مودی خود بھی کریڈٹ اپنے نام کرنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب گودی اور تلوے چاٹنے والا میڈیا اور اس کے اینکرس واہ واہی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ آج بھی وزیر اعظم نریندرمودی نے قوم سے خطاب کیا ۔ انہوں نے جی ایس ٹی کی شرحوں میں تبدیلی کے فیصلے پر اظہار خیال کیا اور کہا کہ یہ ایک طرح سے جی ایس ٹی بچت اتسو ہے جس کے ذریعہ ملک کے عوام کو مہنگائی سے کچھ راحت ملے گی ۔ وزیر اعظم کے خطاب کی دیر تھی کہ گودی میڈیا اور تلوے چاٹو اینکرس نے اس کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کے قصے شروع کردئے اور ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوششیں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج مودی نے جو خطاب کیا وہ فیصلے پندرہ دن قبل ہی ہوگئے تھے ۔ جی ایس ٹی کونسل کے اجلاس میں یہ فیصلے کردئے گئے تھے اور ان پر 22 ستمبر پیر سے عمل آوری کا اعلان بھی کردیا گیا تھا ۔ آج قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس کا سہرا ایک بار پھر اپنے سر باندھنے کی کوشش کی اور اس طرح کا تاثر دیا جانے لگا ہے کہ معمولی راحت پہونچاتے ہوئے مودی نے ساری قوم پر احسان کردیا ہے اور اب ہندوستان کا کوئی شخص بھوکا نہیں مرے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جی ایس ٹی کے نام پر ملک میں کئی برسوں سے لوٹ مچائی گئی تھی ۔ ادویات اور غذائی اجناس پر تک بھاری محاصل عائدکردئے گئے تھے اور آسائشات کی اشیاء پر برائے نام یا معمولی ٹیکس عائد کیا گیا تھا ۔ گذشتہ کئی برسوں سے عوام کی جیبوں پر جو ڈاکہ ڈالا گیا تھا اس کا جواز پیش کرنے میں بھی تلوے چاٹو اینکرس پیچھے نہیں رہے تھے اور اب معمولی سی کمی اور کچھ حد تک راحت کی بھی واہ واہی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی یہ نہیں پوچھ پا رہا ہے کہ اب یہ سہولتیں فراہم کی جاسکتی تھیں تو پھر گذشتہ کئی برسوں سے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ کیوں ڈالا گیا تھا اور ان سے لوٹی ہوئی رقم کس کے کھاتوں میں چلی گئی ہے ۔
جہاں تک جی ایس ٹی کی شرحوں کا سوال ہے تو کئی برسوں سے قائد اپوزیشن راہول گاندھی اس پر تنقیدیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے اس ٹیکس کو گبر سنگھ ٹیکس قرار دیا تھا اور اس میں تبدیلیوں کی وکالت کرتے آئے تھے ۔ آج گودی میڈیا یا تلوے چاٹو اینکرس اس تبدیلی یا کمی کا سہرا راہول گاندھی کے سرباندھنے تیار نہیں ہیں اور اس کا سہرا بھی مودی کے سر ہی باندھا جا رہا ہے ۔ اگر اس کمی یا کٹوتی کا سہرا مودی کے سر باندھا جا رہا ہے تو پھر گذشتہ کئی برسوں سے مچائی گئی لوٹ کی ذمہ داری بھی نریندر مودی پر ہی عائد ہوتی ہے اور مودی کو آج اپنی مارکٹنگ یا تشہیر کرنے کی بجائے قوم سے معذرت خواہی کرنی چاہئے تھی کہ غلط فیصلے کی وجہ سے برسوں سے عوام کو لوٹا گیا ہے ۔ تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ حکومت کی جانب سے کئے گئے فیصلے کی تشہیر کیلئے قوم سے خطاب کا حربہ اختیار کیا گیا اور ایک بار پھر سے انتخابی فائدہ اٹھانے کیلئے مارکٹنگ شروع کردی گئی ہے ۔ قوم کو کئی مسائل درپیش ہیں جن پر مودی نے آج اپنے خطاب میں کوئی توجہ نہیں دی ۔ جس طرح سے امریکی شرحیں عائد ہوئی ہیں اور ملک میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ان پر کوئی بات نہیں کی گئی اور نہ ہی جو امریکی ویزا کی فیس میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا ہے اور اس سے ہندوستانی نوجوانوں کے کیرئیر متاثر ہوسکتے ہیں اس پر کوئی تبصرہ کیا جانا چاہئے تھا لیکن مودی نے ایسا بھی نہیں کیا گیا بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان سلگتے ہوئے مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے جی ایس ٹی بچت اتسو کا اعلان کردیا گیا ۔
حکومت چلانے کیلئے تشہیری حربے یا مارکٹنگ کی حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے ملک اور عوام کی توقعات اور امیدوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ملک میں ایسا نہیں کیا جا رہا ہے ۔ گذشتہ دس تا گیارہ سال میں جو مہنگائی ہوئی ہے اور آٹا ‘ چاول ‘ دال ‘ تیل ‘ دودھ اور ادویات کی جو قیمتیں بڑھی ہیں اس پر حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم کو جواب دینے کی ضرورت ہے کیونکہ انہوں نے سو دن میں قیمتیں کم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ گودی میڈیا سے امید رکھنی توفضول ہی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو حقیقی معنوں میں نبھانے کی کوشش کریں گے ۔ ملک کے عوام مگر اس طرح کے حربوں کو اب سمجھ چکے ہیں اور حکومت کے جھانسے میں آنے تیار نہیں ہیں۔