وزیر اعظم کا دورہ منی پور

   

راستے اپنے بدلنے سے نہیں کچھ حاصل
اے مسافر تجھے رہبر کو بدلنا ہوگا
ملک کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں نسلی تشدد پھوٹ پڑے دو سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے ۔ سینکڑوں افراد اس تشدد کی وجہ سے زندگی گنوا بیٹھے ہیں اور ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ بے شمار مکانات کو نذر آتش کردیا گیا ۔ ارکان اسمبلی اور وزراء کے مکانات کو تک بخشا نہیں گیا ۔ انتہائی اضطراب کی صورتحال میں منی پور کے عوام اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے تشدد کے دو سال سے زائد عرصہ کے بعد آج منی پور کا دورہ کیا ۔ یہ دورہ بھی محض چند گھنٹوں کا دورہ ہی تھا اور وہاں انہوں نے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے اور انہیں تسلی اور دلاسہ دینے کی بجائے روڈ شو کرنے کو ترجیح دی ۔ منی پور میں تشدد کے متاثرین کو کسی طرح کی راحت کا اعلان کرنے اور ان کیلئے موثرانتظامات کرنے کی بجائے انتظامیہ کی جانب سے وزیر اعظم کے فقید المثال استقبال اور خیر مقدم پر زیادہ توجہ دی گئی ۔ ایک تاثر یہ پیدا ہو رہا تھا کہ وزیر اعظم منی پور کے تشدد سے متاثرہ عوام کو تسلی اور دلاسہ دینے نہیں بلکہ کوئی جشن منانے کیلئے وہاں آئے ہیں۔ دو سال سے زائد عرصہ کے بعد وزیراعظم نے منی پور کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس دورہ کے شیڈول کو بھی لمحہ آخر تک راز میں رکھا گیا اور دورہ کی توثیق محض ایک دن قبل کی گئی ۔ سکیوریٹی نقطہ نظر سے ایسا کرنا ضروری بھی تھا تب بھی وزیر اعظم کو اپنے شایان شان استقبال پر توجہ کرنے کی بجائے منی پور کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی جو انہوں نے نہیں کی ۔ محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے اور ایک انتخابی روڈ شو کی طرح پروگرام کرتے ہوئے منی پور کے عوام کو راحت نہیں دی جاسکتی ۔ دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے تشدد کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب بھی وقفہ وقفہ سے ناخوشگوار واقعات پیش آتے ہیں۔ منی پور میں بی جے پی کی حکومت تھی ۔ اس حکومت نے استعفی پیش کردیا اور تشدد پر قابو پانے میں ناکامی کا عملی طور پر اعتراف کیا ۔ اب ریاست میں صدر راج نافذ ہے ۔ اب بھی کنٹرول مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہی ہے ۔ اس کے باوجود منی پور کی صورتحا ل کو بہتر بنانے اور وہاں دیرپا اور پائیدار امن قائم کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں اور نہ ہی ریاست میں عوام کی منتخبہ حکومت کے قیام کی سمت کوئی پیشرفت ہوئی ہے ۔
ملک بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی شخصی مدح سرائی اور اپنی بڑائی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔ منی پور میں آج یہی کچھ دیکھنے میں آیا ہے ۔ جس طرح کا وزیر اعظم کا استقبال کیا گیا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کوئی جشن منانے آئے ہیں عوام کے زخموں کو مرہم رکھنے کیلئے نہیں آئے ہیں۔ اسی طرح وزیر اعظم نے جس طرح انتخابی ریاستوں میں کیا جاتا ہے اسی طرح کا روڈ شو منعقد کرنے کو ترجیح دی ۔ انہوں نے تشدد سے متاثرہ افراد سے بھی ملاقات کی اور ان سے بات چیت بھی کی ۔ اس موقع پر متاثرہ عوام اپنے حالات سناتے ہوئے شدت جذبات سے مغلوب ہوگئے اس کے باوجود منی پور میں حالات کو بحال کرنے اور عوام کے زخموں کو مندمل کرنے کیلئے کسی طرح کی خصوصی مدد کا مرکزی حکومت کی جانب سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔ کچھ ترقیاتی پراجیکٹس وغیرہ کا سنگ بنیاد ضرور رکھا گیا ہے لیکن دو سال سے جاری تشد د کے متاثرین کیلئے کسی طرح کی راحت یا امداد کا پیاکیج نہیں دیا گیا ۔ جو ہزاروں مکانات جل کر خاکستر ہوگئے ہیں ان کی مرمت یا تعمیر نو کیلئے کوئی اسکیم شروع نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ریاست میں متحارب نسلی گروپس کے مابین اتفاق رائے پیدا کرنے اور حالات کومعمول پر لانے کیلئے بھی کسی طرح کے اقدامات کا اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم منی پور آئے ۔ انہوں نے وہاں چند گھنٹے گذارے اور پھر واپس چلے گئے ۔ یہ دورہ منی پور کے عوام کی توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس سے ریاست کے حالات کو معمول پر لانے کی سمت کوئی پیشرفت نہیں ہوگی اور نہ ہی عوام کو کسی طرح کی راحت نصیب ہوگی ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیر اعظم تشدد کے متاثرین کے ساتھ تفصیلی طور پر بات چیت کرتے ۔ ان کے درمیان مزید وقت گذارتے ۔ ان کے مسائل کی سماعت کرتے ۔ انہیں راحت پہونچانے کیلئے کسی خصوصی پیاکیج کا اعلان کرتے ۔ ان کے مسائل کی یکسوئی کیلئے کسی جامع اور مبسوط حکمت عملی کی بات کی جاتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا اور محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے ایک دورہ کیا گیا اور کچھ نہیں ۔ یہ دورہ منی پور کے عوام کیلئے کسی طرح کی راحت پہونچانے میں معاون ثابت نہیں ہوگا ۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ متحارب گروپس کے مابین اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے کسی منصوبے کا اعلان کیا جاتا تاکہ حالات کو معمول پر لایا جاسکے ۔ محض کچھ گھنٹوں کے دورہ سے وہ گھاؤ مندمل نہیں ہوسکتے جو دو سال کے تشدد کی وجہ سے لگے ہیں۔ وزیر اعظم کو یہ درد سمجھنا چاہئے تھا جو انہوں نے نہیں سمجھا ۔
نیپال میں عبوری حکومت کا قیام
پڑوسی ملک نیپال میں نئی حکومت کا قیام عمل میں آچکا ہے ۔ سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کو عبوری وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف دلایا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ آئندہ سال مارچ میں ملک میں تازہ انتخابات کروانے کا فیصلہ بھی ہوگیا ہے ۔ اب نیپال میں حالات کو بتدریج معمول پر لانے کیلئے توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ نئی اور عبوری حکومت کو بھی نوجوانوں اور عوام کے جذبات و احساسات کی پاسداری کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ کرپشن سے پاک معاشرہ کی تشکیل کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں تاکہ نوجوانوں میں اعتماد کی فضاء بحال ہوسکے ۔ نوجوانوں کے مستقبل کو بہتر اور تابناک بنانے کیلئے بھی حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر آئندہ پارلیمانی انتخابات پوری شفافیت اور غیرجانبداری کے ساتھ منعقد کرنے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ملک میں امن و قانون کو بحال کرنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ عوام میں بے چینی کی فضاء دوبارہ پیدا ہونے نہ پائے اس کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ عوامی برہمی کا جو مرحلہ تھا وہ گذر چکا ہے اور اب سارے ملک میں امن و امان کو بحال کرتے ہوئے حالات کو دوبارہ معمول پر لانے کیلئے تمام فریقین کو اعتماد میں لیتے ہوئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔